منظر الحق
Manzarhaque101@gmail.com
دور قدیم کا انسان آرام سے سو کر اٹھتا،اپنی الصبح کی مصروفیات و ضروریات زندگی سے چین سے فراغت پاتا اور پھر گھی سے لپڑے پراٹھے،مکھن کی ڈلی ،شہد کے چھتے اور چھاج والی لسی سے اپنی پیٹ پوجا کرتا۔اس کے برعکس موجدہ دورانیے کا برقی انسان، الصبح گھڑی گھنٹے کی گھنٹی سن کر،ہڑبڑا کر بستر سے نمودار ہوتا ہے اور جلدی جلدی ضروریات زندگی سے فراغت پانے کی کوشش کرتا ہے،پر کبھی کوئی برقی آلہ کام نہیں کرتا اور کبھی کسی برقی آلے کا استعمال ہی نہیں آتا۔گر خدانخواستہ آپ جاپانی بیت الخلاء میں گھس گئے،وہاں کی دنیا برقی آلات سے لیس ہوتی ہے اور کبھی ڈھکنا اٹھے گا اور کبھی آپ کے بیٹھے رہنے کے باوجود بند ہونے لگے گا، کبھی پانی کی بوچھاڑ آگے ہو گی،جب صفائی کے لیئے ہاتھ آگے آیا ،تو پانی کی بوچھاڑ پیچھے ہو رہی ہو گی ؟ کبھی گرم ہوا کا جھونکا آگے کے رخ آئے گا اور کبھی ہوا پیچھے پھینکی جائے گی اور اس اثنائ آپ کا سارا ناشتہ ٹھنڈا مٹی ہو چکا ہو گا۔ویسے بھی ناشتہ کس بدبخت کو نصیب ہوتا ہے،ایک چائے یا کافی کی پیالی،وہ بھی برقی آلے کی محتاج اور صرف پانی گرم ملتا ہے۔کچھ مشینیں کافی بناتی ہیں،انسان کا سر گھوم جائے،اس قدر بٹن دبانے پڑتے ہیں اور لاتعداد اقسام کی کافی مہیا رہتی ہے،ذرا سی غلطی ہوئی اور جناب دوسری قسم کی کافی بنا دے گی،یہ بھی ہماری بیگمات سے کچھ مختلف نہیں ہے،بس اپنی من مانی کرتی ہے۔چلئے آخرکار آپ گھر سے باہر نمودار ہوئے،گر آپ گاڑی چلانے کے شوقین ہیں اور گاڑی گھر کے اندر بند ہے،پھر اس کو نکالنے کے لئے دو چار بٹن دبائیں،پھر کہیں دروازہ اوپر اٹھے گا۔گاڑیاں بھی مختلف وضع قطع کی آنے لگیں ہیں،کسی میں دروازہ اوپر کھلتا ہے اور اس میں ہاتھ سے کھولنے کا انتظام ہی نہیں،ہم جیسا شخص گاڑی کے چکر ہی لگاتا رہ جائے ،بس برقی بٹن سارا کام کرتا ہے اور اس کی بیٹری ختم ہو گئ،تو پھر اللہ اللہ خیر سلا،نہ دروازہ کھلے گا اور نہ گاڑی کی مشین میں کوئی حرکت ہو گی ،بس آپ گھر پہ آرام فرمائیں۔جو لوگ چھک چھک استعمال کرتے ہیں،وہ بھاگم دوڑ کر کے،لشتم پشتم اڈہ پہ پہنچتے ہیں اور اپنی ماہانہ برقی بلٹی کو حفاظتی ڈنڈا سے ٹکراتے ہیں اور وہ کھل جا سم سم کی طرح کھل جاتا ہے۔اب یہ برقی بلٹی کی بھی عجب کہانی ہے،کبھی اس میں پیسے ختم ہو جاتے ہیں اور کبھی حفاظتی ڈنڈا اس سے بات چیت کرنے سے انکاری ہو جاتا ہے،دونوں صورتوں میں محافظ کا ماتھا تھنکتا ہے اور آپ کو الگ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سارے گزرنے والے مسافر،آپ پر شک و شبہ کی نظر ڈالتے ہیں اور آپ بھیگی بلی بنے، وہاں سوال و جواب کی کسوٹی پر پرکھے جاتے ہیں۔مزید پیسے ادا کر کے،گلو خلاصی ہوتی ہے اور چلتی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر نیچے پہنچتے ہیں۔اب یہ بھی حکومتی کارندوں پر منحصر ہے،آپ کے چھک چھک اڈہ کی چلتی سیڑھی کام کر رہی ہے یا اس کی طبیعت ناساز ہے اور طبیب کو اس کا معائنہ کرنے کے لیئے دعوت نامہ ارسال کر دیا گیا ہے۔اس کام میں کبھی ایک دو دن کا لیت و لعل ہو جاتا ہے،کبھی چند دنوں تک معاملہ ٹل جاتا ہے اور آپ ہانپتے کانپتے، سیڑھیاں اتر چڑھ رہے ہوتے ہیں۔اب ذرا چھک چھک سے ملاقات ہو جائے،یہ آپ کی خوش قسمتی ہو گی گر وہ وقت پر آ گئی،اوقات کار کی پابندی میں یہ کسی معشوق سے کم نہیں اور ہمیشہ دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔پر مجال ہے کوئی محکماتی معذرت نامہ چسپاں کیا جائے،کوئ تادیبی کاروا ئی یکی جائے اور اس قسم کے ناقص نظام کو بدلنے کی سعی کی جائے۔کبھی چھک چھک اڈے پر تو پہنچ گئی،سارے مسافر سوار بھی ہو گئے،پر وہ ہلنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور سب اپنی اپنی برقی گھڑیوں پر غصیل نظریں ڈال رہے ہیں۔بھائی اس گھڑی نے کیا قصور کیا ہے،وہ بیچاری بے قصور ہے اور سارا دوش چھک چھک کی انتظامیہ کا ہے۔آخرکار برقی آلے پر اعلان سماعت کریں،غیر معمولی وجوہات کی بنائی یہ چھک چھک آگے نہیں جائے گی اور آپ سب لوگ متبادل انتظامات کر لیں،آپ کے لیئے باہر لمبی کرائے کی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ان سب مراحل سے گزر کر اپنے دفتر پہنچ گئے،وہاں اندر داخلے کے لیئے برقی تختی ضروری ہے اور گر وہ گھر میں رہ گئی ہے،پھر حفاظتی عملے کی جرح آپ کی منتظر ہے۔کبھی کبھار یہ نام کی تختی کھو جاتی ہے،آپ کو اس کی اطلاع فورا حفاظتی عملے کو بہم فراہم کرنی ہوتی ہے،وہ آپ کی سات پشتوں کے ضائچہ کی بابت دریافت کریں گے اور گر کہیں ہچکچاہٹ دکھائ،سارا عملہ آپ کے اردگرد گدھوں کی طرح منڈلانے لگے گا۔بات نہ جانے کہاں تک پہنچ جائے گی،سارے جہاں کو علم ہو جائے گا اور آپ خجالت سے سر جھکائے ،اپنی نئی نام کی تختی کے روزانہ منتظر رہیں گے۔چلیئے یہاں تک بھی بات ٹھیک ہے،حفاظتی انتظامات کا یہی تقاضا ہے،پر اب آپ اپنی کرسی پر براجمان ہوئے اور برقی آلے،جو برقی جنات(کمپیوٹر) کہلاتے ہیں،انھیں کھولنے کا عمل شروع ہوا۔پہلے اپنا فرضی نام ڈالیئے،اس کے نیچے فرضی اعداد و شمار کی لمبی فہرست لکھیئے اور اللہ سے امید یہی لگائے رکھیں، پچھلے دنوں آپ نے جو تبدیلیاں کی تھیں،وہ آپ کو صحیح یاد ہیں۔چھٹیاں گزارنے کے بعد ،یہ مسئلہ زیادہ گھمبیر صورتحال اختیار کر لیتا ہے اور انسان سر کھجاتا نظر آتا ہے۔کون سا نام تھا ، کیا اعداد و شمار تھے اور کس ترتیب سے انھیں لکھنا ہے۔ہم جیسا بھلکڑ آدمی، یہ ساری چیزیں اپنے پاس کہیں لکھ کر رکھتا ہے اور اللہ کی ذات سے دعا یہی ہوتی ہے کہ جس چیز پر لکھا ہے،پرچہ یا آلہ کہیں وہ نہ کھو جائے!اب اگلی مشکل سامنے سر اٹھائے کھڑی ہوتی ہے،ایک صفحہ کھولنے کے لیئے، الگ حفاظتی طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی کبھار یہ شبہ ہونے لگتا ہے ،شاید قارون کا خزانہ اسی مشین میں دفن ہے۔عقل و۔سمجھ کا تقاضہ یہ ہے کہ وہی نام و ہندسے استعمال کر لیں ،پر آپ ہزار جتن کر لیں اور نہ پرانے اعداد و شمار کا استعمال ہو سکتا ہے اور نہ وہی فرضی نام !ہمیں بسا اوقات ان کارندوں کی نیت پر شک و شبہ ہونے لگتا ہے،کیا یہ درد و الم اور تکلیف دینے کی مہارت رکھتے ہیں۔آخر ان کو مشکلات پیدا کر کے کیا راحت ہوتی ہے،کچھ سرو ملتا ہے یا اذیت دینا واقعی ان کا مشغلہ ہے۔ہم پیشے کے لحاظ سے ساری عمر جراحی کرتے رہے ہیں،جراحی کے کمرے میں قدم رکھتے ہی ہماری دنیا بدل جاتی اور ایک عجب سرور کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ہر شخص کو اپنے کام کاج کا علم ہوتا ،بلا تردد وہ اپنے فرائض انجام دیتا اور جراحی کا عمل،بنا کسی رکاوٹ کے پائیہ تکمیل کو پہنچتا۔یہ پچھلی صدی کی کہانی تھی،اب نئی برقی صدی کا آغاز ہو چکا ہے اور دنیائے جراحی نے بھی بیشمار برقی طور طریقے اپنا لیئے ہیں۔مریض کو کمرہ جراحی میں داخلے سے پہلے، دو تین دفعہ برقی حفاظتی جانچ پڑتال کی گراریوں میں سے گزارا جاتا ہے۔اب شوئے قسمت،گر سارے برقی کل پرزے ٹھیک ٹھاک کام سر انجام دے رہیں اوع سارے ستارے بھی موافق ہیں،تو جناب آپ کو مریض پر جراحی کا اجازت نامہ پکڑا دیا جائے گا،ورنہ انتظار فرمائیں۔ ہمارے بیشتر اوزار بھی برقی حرارت کے مرحون منت اور رحم و کرم پر ہیں،خون روکنے و گرماہٹ دینے والے آلے پر کئ جگہ ٹوٹیاں نصب ہیں اور ان کی ادل بدل سے کام کی نوعیت بدلتی ہے۔کسی زمانے میں یہ کام نہایت سیدھا سادھا ہوتا تھا،معمولی ذہانت رکھنے والے منتظم اسے چلانے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اب اعلی تعلیمی اسناد کے باوجود منتظم سر کھجاتے نظر آتے ہیں۔اس کے بغیر جراحی ناممکن ہے،جب تک یہ محترمہ درست آواز نہیں نالیں گیں،ہم سب دست بستہ ان کے سامنے کھڑے رہیں گے۔ایک دوسرا سلسلہ خون و ملغوبے کو ،خلیوں سے دور کرنے کا ہے اور برقی جنات کی امداد یہاں بھی اشد ضروری ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ جلے ہوئے خلیﺅں کا، دھواں بھی کھینچ لیتی ہے اور اس کے مضر اثرات سے سب محفوظ رہتے ہیں۔ان کی بس ایک نالی ہوا کرتی تھی،جس پر ہر شخص نظر رکھ سلتا تھا اور اب مختلف رنگت کی، تین چار نالیاں اور ان اوپر اتنے ہی بٹن ہیں۔کون سا بٹن کا کارنامہ سر انجام دے گا،بیشتر منتظم ٹپے ٹوئیاں ہی مارتے۔رہ جاتے ہیں اور آخرکار وہ آلہ تھک ہار کر خود ہی چل پڑتا ہے۔آج کل جراحی خوردبین و دوربین کی خالہ زاد بہن کے ذریعہ کی جاتی ہے،ان آلوں میں عکاسی کرنے والے حساس برقی آلات نصب ہوتے ہیں اور یہ انسانی جسم کے اندرونی حصوں کو تصویری خبرنامے کی طرح دکھا دیتے ہیں۔اس کے لیئے منتظمین کی تعلیم و تربیت لازم و ملزوم ہے،گر سامنے کچھ دکھائی نہیں دے گا،تو جراح کیا خاک جراحی کرے گا اور ساری تدبیریں رائیگاں جائیں گی۔کبھی صاف دکھائی نہیں دیتا۔اب کمرہ جراحی سے نکل کر، مریضوں کے بستر کا رخ کیا جاتا ہے اور یہاں بھی دنیا الٹی پلٹی ہو چکی ہے۔گر کوئی پرانے زمانے کا طبیب، یہاں آ بھٹکا بیچارا سر کھجانے کے علاوہ کوئی اور کام نہ کر سکے گا۔ ساری معلومات برقی جن(کمپیوٹر ) کے اندر محفوظ ہیں ،مریض کا روزانہ کا ذائچہ ہو ،ادویات کی فہرست ہو اور اس کی تشخیص سے متعلق معلومات ہوں۔ہمیں بھی بسا اوقات اپنے نومولود طبیبوں کی مدد درکار ہوتی ہے،وہ ہمیں سبکی سے بچا لیتے ہیں اور چھوٹے موٹے کام نہایت خندہ پیشانی سے سر انجام دیتے ہیں۔دوسرے محکموں سے ڈاک بھی برقی نوعیت سے آتی ہے،اپنا برقی جن کھولیں اور اسی میں ڈاک دیکھ کر جوابات بھی وہیں سے ارسال فرمائیں۔شروع شروع میں یہ سارا وبال جان تھا،پر آہستہ آہستہ برقی دنیا سے مانوس ہوتے گئے اور اب کوئی بھی برق رفتار قدم ،برقی دنیا میں قدم رنجہ فرمائے بغیر نہیں پڑتا ہے۔اگلی صدی میں یہ برقی کھیل کیا رنگ دکھائے گا،یا تو اس کا علم برقی دنیا کے گرو گھنٹال کو ہے یا مولا ہی سارے علم کا احاطہ کرتا ہے۔