نیا امریکی صدر اور نیا عالمی منظر نامہ

Nov 13, 2024

امتیازاقدس گورایا

بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

7 نومبر 24کے انتخاب میں امریکی عوا م نے ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو 56 فیصد ووٹروں کی اکثریت سے صدارت پر فائز کر دیا . جوزف بائیڈن کی پارٹی کی کمیلا ہیرس کو مسترد کرنے کی دو بڑی وجوہ عالمی سطح پر زیر بحث ہیں۔ ایک تو ان کے انتخابی منشور کو زیادہ اہمیت نہیں ملی، دوسری بات کا تعلق خلیج کی بگڑتی صورت حال اور روس یوکرائن جنگ سے ہے۔ یہ بات درست ہے کہ امریکہ جسے اپنی طاقت اور اثرورسوخ پر ناز ہے وہ سوا دو سال سے یوکرائن روس جنگ رکوانے اور ختم کرانے کی بجائے اسے مزید پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔ فلسطین کے حالات اس سے بھی زیادہ بھیانک اور قابل گرفت ہے۔ یوکرائن کی نسبت فلسطین کی فوج نہ ہونے کے برابر ہے اس کے عالمی دوستوں کی تعداد بھی یوکرائن جیسی نہیں، یہاں بھی امریکہ نے جارجیت اور بارود کی جنگ روکنے کی بجائے حق دفاع کے غیر ضروری' غیر اخلاقی اور غیر آئینی جواز پر اسرائیل کو طرف داری کی ،صہیونی فوجی قوت میں اضافہ کیا اور پورے 13 ماہ سے یہ نیتن یاہو حکومت سے ''پیار ومحبت'' کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلاموقع ہے کہ یوکرائن اور فلسطین کی حمایت میں غیر معمولی یک جہتی مظاہرے دیکھے گئے امریکی صدر اور نائب صدر سمینارز پریس کانفرنس کے دوران کڑوے سوالات سننا پڑے۔ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ جنگی ماحول ختم کرانے کی باتیں کرتے رہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ صدر ہوتے تو یوکرائن اور فلسطین کی جنگیں ایک دن میں ختم کرا دیتے یہی وہ انسان دوستی کی ادا ہے جو امریکی عوام کو پسند آئی جس کے بدلے ووٹرز نے اپنا وزن ان کے ترازو میں ڈال دیا۔ نئے برس ( 2025 )کے پہلے ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اللہ کرے اس دن دنیا کو بے مقصد جنگی ماحول سے دور کر دے آمین… یہ بھی درست ہے کہ ٹرمپ نے دنیا میں امریکا کے پولیس کے کردار کو ختم کرنے اور اندرونی مسائل کے حل کا بیانیہ امریکیوں کے سامنے پیش کیا۔ امریکیوں نے اسی بیانیے پر ٹرمپ کو وائٹ ہاو¿س تک پہنچایا۔ جیسے امریکا میں ٹرمپ کا راستہ روکا گیا اسی طرح دوسرے ممالک میں امریکا مخالف سیاستدانوں کا راستہ روکا گیا۔ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکا پولیس نہیں رہے گا تو امریکا کی جانب سے مجرم قرار دیئے جانے والے بھی ملزم نہیں رہیں گے۔ دوسرے ممالک کے امور میں امریکی مداخلت ختم ہوگی تو ان ممالک میں خودبخود تبدیلی آئے گی۔امریکا کی ترقی کیلئے امریکا کی خارجہ پالیسی تین اہم ستونوں پر کھڑی رہتی ہے۔ امریکا کیلئے سب سے اہم خلیج فارس ہے جہاں سے تیل اور دیگر تجارتی سامان کی ترسیل امریکی معیشت کے پہیے کو چلاتی ہے۔ اس پہیے کو چلتا رکھنے کیلئے امریکا کی اسرائیل کی غیرمشروط حمایت ہمیشہ جاری رہے گی۔ امریکی خارجہ پالیسی کا دوسرا اہم عنصر یورپ ہے جہاں پر روس کی موجودگی امریکا کیلئے بہت اہم چیلنج ہے۔ تھوڑی سے لاپرواہی یورپ کو روس کی جھولی میں ڈال سکتا ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم عنصر امریکا کیلئے چین ہے جو معاشی رقابت میں امریکا کو اگر مات نہیں تو ٹکر دے رہا ہے۔ امریکی پالیسی سازوں کے مطابق امریکا غیر ضروری طور پر مشرق وسطیٰ اور یورپ کے مسائل میں الجھ رہا ہے اسے دنیا میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کیلئے تمام تر توجہ چین پر رکھنی چاہیے۔ امریکا کے حقیقت پسندوں کو اس بات کا ادراک بہت پہلے ہوچکا تھا کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہیں اس کا اختتام بہت ہی خطرناک ہے۔ امریکا کے حقیقت پسند پالیسی سازوں نے جب اس مقصد کیلئے پالیسی سازی کی کوشش کی تو انہیں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ سپرپاور صرف ایک نیم پلیٹ ہے جسے وہ گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں مگر حقیقت میں ایک خاص دائرے سے نکل امریکی اپنی مرضی کی پالیسی تک بنانے میں بااختیار نہیں۔ اسی سوچ نے ایک بیانیہ کو پروان چڑھایا۔ اس بیانیے کے ماننے والوں کیلئے ٹرمپ ایک مسیحا بنے، تو سسٹم نے اسے باہر نکلا وہ سسٹم سے لڑ کر مزید مضبوط ہوکر دوبارہ آئے۔ تیل پر انحصار کم ہونے کے باعث امریکا اب صرف جذباتی لگاو    کی بنیاد پر مزید مشرق وسطیٰ میں اپنے وسائل خرچ نہیں کرسکتا۔ اسرائیل کو خود ہی عربوں کے ساتھ مسائل حل کرنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔ یوکرین جنگ سے یورپ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے، امریکا یوکرین کی مالی مدد ختم کرکے یوکرین کو روس کی رحم و کرم پر چھوڑ دے گا۔ جنگ کے دوران ہزاروں افراد کی اموات اور انفراسٹرکچر کی تباہی یوکرینیوں کو ہمیشہ کیلئے امریکا سے بد دل کردے گی۔امریکا اپنی تمام تر توجہ ایشیا پیسفک پر کرنا چاہتے۔ ٹرمپ پہلے ہی شمالی کوریا کے ساتھ مسائل ختم کرنے کی پہل کرچکا ہے۔ امریکا ایک بار پھر ایشیا پیسیفک میں اپنے مفادات کیلئے شمالی کوریا کو راضی کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکا اپنے اتحادیوں کو کیسے چھوڑتا ہے۔ شمالی کوریا تو کیا جاپان، جنوبی کوریا، ملیشیا ، فلپائن سمیت کوئی امریکی اتحادی امریکا پر آنکھیں بند کرکے اعتماد نہیں کرسکے گا۔

مزیدخبریں