حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضور نبی کریم کے عاشق صادق تھے۔ آپ ان دس خوش نصیب صحابہ میں شامل ہیں جنہیں حضور نبی کریمﷺنے جنتی ہونے کی بشارت دی۔ جنگ احد کے موقع پر جب مسلمانوں میں افراتفری پھیلی تو حضرت طلحہ ان چند اصحاب میں تھے جنہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی حفاظت کی خاطر انہیں اپنے حصار میں لے لیا تھا۔
آپ نے نبی کریم ﷺ کی حفاظت کی خاطر بے شمار شجاعت و بہادری اور جانثاری کا مظاہرہ کیا۔ جنگ احد میں حضور نبی کریم ﷺ کی حفاظت کے دوران کفار کے تیروں اور برچھیوں کے وار سے آپ بہت زیادہ زخمی ہو گئے۔ہاتھ کی کچھ انگلیاں کٹ گئیں۔ جب کفار کے حملوں کی شدت کم ہوئی تو حضرت طلحہؓ خود زخمی ہونے کے باوجود حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر جبل احد پر ایک محفوظ مقام پر لے گئے۔ لڑائی کے بعد آپ کے جسم پر 80 سے زائد زخم موجود تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس جانبازی کی وجہ سے آپکو ”خیر“ کا لقب عطا فرمایا۔
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار السابقون الاوالون میں ہوتا ہے. یعنی وہ خوش نصیب صحابہ کرام جو ابتدائے اسلام میں ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ آپ بھی عشق مصطفی سے سر شار تھے اور ہر وقت اپنا سب کچھ حضور نبی کریم ﷺ پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ جب آپ نے اسلام قبول کیا تو کفار آپ کیے سخت خلاف ہو گئے۔ آپ کو سخت تکالیف دی جاتیں اور دہکتے کوئلوں پرلٹا کر ایک آدمی آپ کے سینہ پر بٹھا دیا جاتا تا کہ آپ کروٹ نہ بدل سکیں۔آپ صبر وتحمل کے ساتھ سب برداشت کرتے رہتے۔ یہاں تک کہ آپ کے خون سے انگارے ٹھنڈے ہو جاتے۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ نے دامن مصطفی کو نا چھوڑا۔ ایک مرتبہ آپ کے آقا نے لوہے کی گرم سیخ کے ساتھ آپ کا سر مبارک داغا۔ آپ نے اپنا سر آپ کو دکھایا اور عرض کی یا رسول اللہ میرے لیے دعا کریں۔آپ نے فرمایا اے اللہ خباب کی مدد فرما۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ آپ کی پیٹھ کو دیکھا گیا تو تمام جلد پر جلنے کے نشان تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں تعظیم کے ساتھ اپنے گدے پر بٹھایا۔ ایک مشرک نے حضرت خباب ؓ سے قرض لیا اور واپس کرنے سے انکار کر دیا اور کہا جب تک تم دامن مصطفی نہیں چھوڑوگے میں قرض واپس نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا یہ دنیا کا مال یہاں ہی رہ جانا ہے اگر خباب کی جان بھی چلی جائے تو بھی دامن مصطفی نہیں چھوڑوں گا۔