کرکٹ کے علاوہ باقی کھیلوں میں اعزاز حاصل کرنے والوں کی بھی پذیرائی کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے 22 سال بعد آسٹریلیا کو اسی کی ہوم گراﺅنڈ میں ہرا کر بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ہمارے باﺅلرز اور بلے بازوں سب نے اچھی کارکردگی دکھائی‘ اب ہر کوئی ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ مگر ان شادیانوں کے شور تلے بہت سی کامیابیوں کی دوسری خبریں یوں دب گئیں جیسے پہاڑ تلے آکر اونٹ دب جائے اور کسی کو پتہ ہی نہ چلے۔ پہلی خبر تو یہ تھی کہ گزشتہ ہفتے پاکستانی کھلاڑی محمد آصف نے تیسری مرتبہ سنوکر کا عالمی ٹائٹل جیت کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ انکی اس ہیٹ ٹریک پر ، کھیلوں کی وزارت کے علاوہ شاید ہی کسی نے مبارکباد دی ہو۔ باقی سب کے کان تو ہیں نہیں کہ ان پر جوں رینگتی۔ وہ اب واپس بھی آئے تو ایئرپورٹ پر رسمی طور پر محکمہ سپورٹس کے چند لوگ موجود تھے جس پر محمد آصف نے اظہار تاسف کیا۔ اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ گزشتہ دنوں کی تازہ ایک اور بڑی کامیابی پاکستان بیس بال کی ٹیم کی دبئی کے انٹرنیشنل ایونٹ میں پہلی پوزیشن ہے۔ اس پرعزم ٹیم کے نوجوان کھلاڑیوں نے بھارت‘ سری لنکا اور فائنل میں عرب امارات کی ٹیم کو بھاری مارجن سے شکست دی۔ سچ کہیں تو کسی ٹیم کو اپنے سامنے ٹکنے نہ دیا۔ کسی کو 11 کسی کو 9 اور کسی کو 13 پوائنٹس سے شکست دی۔ جس سے پوری قوم نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ مگر وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔ یعنی کرکٹ والوں جیسی‘ انکی پذیرائی جیسی پذیرائی اگر باقی گیمز کے کھلاڑیوں کو بھی ملے تو وہ بھی آگے بڑھنے کیلئے اور بھی جان لڑائیں گے اور مزید کامیابی سمیٹیں گے۔ مگر یہی دیکھ لیں کہ پاکستانی تن ساز نے اور با ڈی بلڈر نے عالمی مقابلے گزشتہ دنوں ہی جیتےمگر وہی ”جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا“۔ بہت کم لوگ اس اچھی خبر سے واقف ہونگے۔ کیا یہ کھلاڑی شاباش کے مستحق نہیں‘ انہیں بھی سرکاری سطح پر سراہنا ہوگا‘ انعامات دینا ہونگے‘ ورنہ چھوٹے صوبے کے کھلاڑی تو پہلے ہی پذیرائی نہ ملنے پر شاکی نظر آتے ہیں۔ صرف کرکٹ کے بارہ ستارے ہی نہیں باقی کھیلوں کے سٹار بھی آسمان پر چمکتے اچھے لگتے ہیں۔
ڈاکو شاہد لوند کے قاتل کو ایک کروڑ ملیں گے‘ پولیس تحفظ دے۔ عمر لوند۔
سندھ اور پنجاب کی انتظامیہ کیلئے درد سر بننے والے کچے کے ڈاکوﺅں میں سے بڑا نام شاہد لوند کا تھا۔ یہ ٹک ٹاک اور ویڈیو پیغامات کے ذریعے حکومت اور پولیس کو بڑے دھڑلے سے چیلنج کرتا‘ خطرناک اسلحہ لہراتا‘ موٹر سائیکل پر سوار ادھر ادھر آتاجاتا تھا۔ اسکی بے باکی اور بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے اسکے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے رکھی گئی تھی۔ ویسے تو پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری اور کارروائیوں کے باوجود یہ ہاتھ نہ آسکا تو پولیس نے روایتی طور پر اپنے مخبروں کے ذریعے اسکے مخالف ساتھی کو توڑ کر ساتھ ملالیا جس نے ایک رات کھانے کے بعد اسے فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا اور پولیس کے پاس چلا آیا کہ حسب وعدہ اس کو اور اسکے گھر والوں کو تحفظ دیا جائے جنہیں ڈاکوﺅں کی شدید مزاحمت فائرنگ کے باوجود پولیس نکالنے میں کامیاب رہی۔ شاہد کی لاش ابھی تک ڈاکوﺅں کے پاس ہے۔کہیں وہ اسکا بھی مزار نہ بنا لیں ڈاکو شاہ کے نام سے۔شاہد لوند کے گھر والے نعش لینے نہیں آئے نہ کیس درج کیا ہے۔ ویسے یہ ایک اچھی حکمت عملی ہے‘ بھاری انعام کے لالچ میں خود ڈاکوﺅں کے اندر بھی انعام کا لالچ پیدا ہو سکتا ہے اور یوں اس ناسور کا آپریشن کامیاب ہو سکتا ہے۔ دیکھ لیں برائی کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا۔ برائی کو بالآخر شکست ہی ہوتی ہے۔ دوسروں کو مارنے والے نے بھی بالآخر مرنا ہوتا ہے۔ ظلم کی سیاہ رات کو ختم ہونا ہی ہوتا ہے۔ روشنی کی ایک ہلکی سی کرن گہری تاریکی کا سینہ چاک کرکے روشنی کی نوید لاتی ہے۔ کچے کے علاقے میں ان ڈاکوﺅں نے ظلم کی جو داستانیں رقم کیں‘ قتل‘ ڈاکے‘ اغواءبرائے تاوان کی وارداتوں میں سینکڑوں افراد کی زندگی اذیت بنا دی۔ اب خود قصہ پارینہ بن کر جلد ہی فراموش ہو جائیں گے۔ اب شاہد لوند کے قاتل نے جو خود بھی ڈاکو ہے‘ پولیس کے اعلیٰ حکام سے کہا ہے کہ وہ وعدے کے مطابق انہیں گھر والوں سمیت تحفظ دے اور اس پر قائم مقدمات ختم کرے۔ اب اسکے علاوہ پولیس کی بجائے ایک کروڑ روپے بھی اسکو ملیں گے کیونکہ اس نے جان پر کھیل کر یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ اگر باقی ڈاکوﺅں میں بھی .ایسے لوگ پیدا ہو جائیں تو جلد ہی کچے کے ڈاکوﺅں کا خاتمہ ہوسکتا ہے جو پولیس والوں سے نہ ہو سکا۔
سموسے کہاں گئے‘ وزیراعلیٰ ہماچل پردیش نے تحقیقات کا حکم دے دیا۔
بھلا سموسے جیسی کھانے کی چیز کی پوچھ گچھ کیوں کی جائے۔ جس کے مقدر میں لکھا تھا‘ اس نے کھالیا ہوگا۔ کہتے ہیں ناں ‘ دانے دانے پہ لکھا ہے کھانے والے کا نام۔ وزیراعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو کی ریاست ہماچل پردیش میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ان سموسوں کا پتہ لگانا ہے جو ان کے لئے شملہ کے ایک بڑے ہوٹل سے منگوائے گئے مگر وہ ان کو منہ نہ لگا سکے اور راستے ہی سے غائب ہو گئے۔ یہ سموسے غلطی سے انکی بجائے سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے پیٹ میں چلے گئے جس کی وجہ سے اب ان سمیت اور بھی بہت سے اعلیٰ افسران کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں اوراس وجہ سے پانچ پولیس افسران کو سی آئی ڈی نے تحقیقات کیلئے طلب کیا ہے۔ اس پر خوب تماشا لگا ہے۔ بی جے پی والے سموسمے اٹھائے جلوس نکال رہے ہیں تاکہ حکومت کو زچ کر سکیں‘ وہاں کانگرس کی حکومت ہے۔ یہ خبر اس لئے بھی شرمناک ہے کہ جس جماعت کی حکومت میں کھربوں روپے سالانہ کرپشن کی نذر ہوتے ہیں‘ اس کے پیٹ میں بھی ان چند سموسوں کے غائب ہونے سے مروڑ اٹھ رہا ہے۔ کہتے ہیں ناں! دوسروں کی آنکھ میں تنکا دیکھنے والوں کو اپنی آنکھ میں پڑا شہتیر نظر نہیں آتا۔ سو اب بی جے پی والوں کو کانگرس کے یہ سموسے نظر آنے لگے ہیں۔ سموسے پر یاد آیا کچھ عرصہ قبل بہار میں سماج وادی پارٹی کے سدا بہار مقبول عوامی رہنماءکیلئے نعرہ لگتا تھا۔
جب تک سموسے میں آلو رہے گا
بہار میں اپنا لالو رہے گا
لالو پرشاد یادیو اور انکی اہلیہ رابڑی دیوی عرصہ دراز تک بہار کی سیاست میں چھائے رہے۔ پھر کرپشن کے معالات نے انکی سیاست کو گہنا دیا مگر آلو اور سموسوں کے حوالے سے انکی یاد آج بھی بہار والوں کے دل میں زندہ ہے کیونکہ وہ عوامی سیاست دان تھے‘ ہم کہہ سکتے ہیں وہ بھارت کے ملک معراج خالد تھے۔
معاشی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود مہنگائی بے قابو‘ عوام پریشان۔
تمام معاشی اشاریے بہتر ہونے کے باوجود حکومت سے مہنگائی کنٹرول نہ ہونا حیرانگی کی بات ہے۔ باہر سے فنڈ آرہے ہیں‘ امداد مل رہی ہے‘ ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے‘ سٹاک مارکیٹ بلندیوں پر ہے‘ اسکے باوجود روزمرہ استعمال کی اشیاءعام آدمی کی پہنچ سے دور بہت دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اب بے چارے غریب آدمی جب آلو کے نرخ 150 یا 200 روپے کلو دیکھے گا‘ پیاز اور ٹماٹر بھی اسی ریٹ پر ملتے ہیں‘ بینگن‘ گوبھی جیسی سبزی دو سو روپے کلو، تو وہ بھارت سے یہی اشیاء25 تا 50 روپے کلو منگوا کر خریدنے کی بات نہیں کریگا تو کیا کریگا۔ چند قدم کے فاصلے پر آخر ایسی کونسی گنگا بہتی ہے جو ہمارے ہاں آکر الٹی ہو جاتی ہے۔ آبادی انکی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے‘ غربت وہاں ہم سے زیادہ ہے‘ مگر اشیائے خورد و نوش‘ سبزیاں‘ آٹا‘ چاول‘ گھی‘ چینی نجانے کیوں ہم سے بہت سستی ہیں۔ یہی پنجاب جو ہمارے پاس ہے‘ وہاں بھی اس کا صرف تیسرا حصہ ہے جو پورے بھارت کا پیٹ بھرتا ہے اور ہمارا پنجاب سندھ‘ خیبر پی کے مل کر بھی 24 کروڑ پاکستانیوں کا پیٹ نہیں بھر پاتے۔ یہاں چیزیں سستی نہیں ملتیں‘ سوائے موت کے۔
بتا اے دنیا والے یہ کیسی تیری بستی ہے
جینا ہے دشوار یہاں اورموت یہاں پر سستی ہے
جبھی تو خودکشیاں یا غربت کی وجہ سے ہو رہی ہیں یا محبت میں ناکامی پر۔ یا پھر قتل کو خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے ورنہ کون ماں باپ بچوں سمیت زہر کھا کر دریا میں کود کر اپنی جان لیتے ہیں۔ اگر ملک معاشی ترقی کر رہا ہے تو اسکے ثمرات عوام تک بھی پہنچنے چاہئیں۔ ورنہ یہ کھوکھلے نعرے اور کاغذی دعوے سن سن کر لوگوں کے پیٹ تو نہیں بھرتے، وہ اس ترقی کا کیا اچار ڈالیں گے..
ترقی خوشحالی اشرافیہ کی نہیں غریبوں کی ضرورت ہے۔ جن کے پیٹ پہلے ہی بھرے ہوں‘ ان کو مزید فائدے دینا انصاف نہیں ظلم ہے۔ اس لئے کہتے ہیں ”ظلم رہے اور امن بھی ہو‘ کیا ممکن ہے تم ہی کہو“۔ اس سوال کا جواب اب حکمرانوں نے ہی دینا ہے۔