”خطے میں دیرپا امن و ترقی کے لیے کشمیر کے دیرینہ تنازع کا حل ضروری ہے“۔ یہ صرف کشمیری رہنما میر واعظ عمر فاروق کا ہی کہنا نہیں، اب یہ آواز پچاس لاکھ محکوم کشمیریوں کی آواز بن گئی ہے۔ جن کی سرزمین کئی دہائیوں سے بھارت کے زیر قبضہ ہے۔ جہاں دہشت و بربریت کے ماحول میں وہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سن 47ءمیں جب برصغیر میں برطانوی راج کا خاتمہ ہوا تو دو قومی نظریے کی بنیاد پر دو آزاد ملک بھارت اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ ان کے قیام کے ساتھ ہی خطے میں کشمیر کے تنازع نے بھی جنم لیا۔ یہ تنازع دہائیوں سے موجود ہے جبکہ اقوام متحدہ کی ”قراردار“ بھی آج تک اس تنازع کے حل میں مددگار ثابت نہیں ہو سکی۔ یہ وہ تنازع ہے جس کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اب بھی خطے پر جنگ کے بادل منڈلائے رہتے ہیں۔ امن کی فضا قائم نہ ہونے سے دونوں ملکوں میں ترقی کا عمل بھی بری طرح متاثر ہے۔
مقبوضہ کشمیر، پاکستان اور بھارت کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ تاریخی طور پر ایک خوبصورت پہاڑی سلسلوں پر مشتمل سرزمین ہے۔ یہاں پانی کی بہت زیادہ بہتات ہے۔ اخروٹ، بادام اور زعفران کے باغات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ کشمیر سے آنے والا پانی پورے بھارت کو سیراب کرتا ہے۔ جس سے اُس کی زرعی آبی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ کشمیر بہت حسین وادی ہے۔ جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ تاہم دوسری قومیتوں کے لوگ بھی یہاں آباد ہیں۔ تاہم وہ اقلیت میں ہیں۔ سری نگر اور جموں، کشمیر کے دو بڑے شہر ہیں جبکہ سری نگر کشمیر کاکیپیٹل ہے۔
کشمیر کی تاریخ بہت قدیم اور پرانی ہے۔ جس سے کئی کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ دنیا بھر کے ہزاروں سیاح سیر و تفریح کے لیے ہر سال یہاں آتے ہیں۔ یہی وہ سرزمین ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین وجہ¿ تنازع ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں اس تنازعے کا واحد حل رائے شماری ہے۔ جمہوریت کا مسلمہ اصول ہے کہ رائے دہندگان کی اکثریت کی رائے کا احترام کیا جائے۔ جو وہ چاہتے ہیں اُس پر عملدرآمد ہو۔ اگرچہ بھارت خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتا ہے تاہم کشمیر کے معاملے پر اُس کے سب دعوے پتہ نہیں کہاں چلے جاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ غور کرنے کی بات ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ہی جوہری طاقتیں ہیں۔ ان کے درمیان اب جنگ ہوتی ہے تو پاکستان اور بھارت ہی نہیں، پورا خطہ اس جنگ سے متاثر ہو سکتا ہے۔ مودی حکومت نے ہر چیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر میں جو اقدامات کئے ہیں۔ وہاں بسنے والے کشمیری اُن اقدامات سے بہت غم و غصے میں ہیں۔ اُن میں روز بروز اشتعال بڑھ رہا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے آئین ہند کی دفعہ 370کا بھی بہت چرچا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا خصوصیت سے اس کا ذکر کر رہا ہے۔ دفعہ 370آئین ہند کی ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپناآئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی اجازت دیتی ہے۔ جبکہ بیشتر امو رمیں وفاقی آئین (آئین ہند) کے نفاذ کو جموں و کشمیر میں ممنوع قرار دیتی ہے۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات اور خارجہ امور کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں مرکزی حکومت اور مرکزی پارلیمان، ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370کے تحت ریاست کو ایک منفرداور خصوصی مقام حاصل تھا۔ بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین ملک کی دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ وہ دفعہ370کے تحت ریاست جموں و کشمیر پر نافذ نہیں کئے جا سکتے۔
اس دفعہ کے تحت بہت سے بنیادی امور طے کر دئیے گئے تھے۔ دفعہ 370کے تحت کوئی غیر ریاستی باشندہ کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔ نہ شہریت حاصل کر سکتا تھا۔ نیز یہ کہ ریاستی کشمیری ہی یہاں پراپرٹی خرید سکتے ہیں۔ مستقل سکونت اور شہریت کے حق دار ہیں۔ لیکن مودی حکومت نے ایک ایکٹ کے ذریعے دفعہ 370کو آئین سے حذف کر دیا۔ غیر ریاستی باشندوں کو اجازت دی کہ ریاست جموں و کشمیر میں مستقل سکونت اختیار رکر سکتے ہیں، جائیداد بھی خرید سکتے ہیں۔ دفعہ 370کو آئین سے حذف کرنے کا مقصد بھارتی ہندو شہریوں کو ریاست میں آباد کرنا ہے تاکہ وہ یہاں جائیداد خرید سکیں۔ کاروبار کریں اور مستقل سکونت بھی اختیار کر لیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے دفعہ 370کو ختم کرنا، ریاست میں غیر ریاستی افراد کی آباد کاری کو ظاہر کرتا ہے۔ تاکہ رائے شماری یا ووٹنگ کے وقت دنیا کو دھوکہ دیا جا سکے کہ ریاستی اکثریت بھارت کے ساتھ ہے۔ یہ ایسی گھناﺅنی سازش ہے۔ جسے دنیا کا غیر جانبدار میڈیا بے نقاب کر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی اس پر سخت ردعمل کا اظہار کر چکی ہے۔
جموں و کشمیر پر بھارت کے فوجی قبضے کی وجہ سے کشمیریوں کی مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں اور وہ جبر کے ماحول میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ آزادی کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں ہزاروں کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں کشمیر ی نوجوان گزشتہ کئی برسوں سے بھارت اور جموں کی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔ جہاں انہیں سخت اذیتیں دی جاتی ہیں۔ کشمیر میں نسل در نسل آباد ہونے کے باوجود اُن کی آزادانہ نقل و حمل پر پابندی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم مسلمان طالب علم لڑکے اور لڑکیوں پر ہندو انتہا پسند حملے کرتے ہیں۔ انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔
کشمیر اس وقت ایک جیل خانہ بناہوا ہے۔ غیر ملکی آزاد میڈیا کو یہاں آنے کی اجازت نہیں۔ ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ کشمیر میں ریاستی باشندوں کے ساتھ جو ظلم و ستم ہو رہا ہے اور بربریت کا بازار گرم ہے، ا±سے دنیا نہ دیکھ سکے۔ لیکن ایساکب تک ہو گا؟ ہیومن رائٹس کی دعویدار مغربی دنیا بھی اس بربریت پر خاموش ہے۔ بہت کچھ جاننے کے باوجود بھی گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے۔
تاریخ انسانیت نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ اقوام عالم کی نمائندگی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ اقوام متحدہ بھی اس ایشو پر لمبی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ہیومن رائٹس کی وہ تنظیمیں بھی پتہ نہیں کہاں ہیں جو انسانی حقوق کے نعرے ِ لگاتی نہیں تھکتیں اور اس پر بڑے بڑے بھاشن دیتی ہیں۔ کمزور قوموں کے لیے یہ بہت بڑا سبق ہے۔ وہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہ ہوئے، توانا آو از نہ بنے تو طاقتور انہیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔
کشمیری کئی دہائیوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اُن کا مقابلہ ایسے دشمن سے ہے جو اُن کی وادی کو غصب کئے ہوئے ہے۔ کشمیر میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں جاتا جب کوئی کشمیری نوجوان شہید نہ ہوا ہو۔ بھارتی فوج کشمیر کی ہر گلی ، ہر کوچے میں موجود آزادی مانگنے والوں کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ لیکن جو آزادی اور حریت کے متوالے ہیں وہ ان سے ہرگز ڈرے اور سہمے ہوئے نہیں ہیں۔ گرچہ نہتے اور بے سروسامان ہیں لیکن بڑے حوصلے کے ساتھ ایک تربیت یافتہ فوج کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ اب کشمیری نوجوانوں کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے۔ غازی یا شہید ہونا۔
کشمیر کی دھرتی پر چالیس ہزار سے زیادہ کشمیریوں کا خون بہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے آزادی کی راہ میں جانوں کے نذرانے کبھی رائیگاں نہیں جاتے۔ خون سے جو شمعیں روشن کی جائیں۔ تاریخ نے انہیں کبھی بجھتے نہیں دیکھا۔ ایک دن ضرور آئے گا۔ آسمان بھی جب کشمیریوں کی قربانیوں پر انہیں تحسین پیش کر رہا ہو گا۔ انشاءاللہ___اسی آسمان پر چڑھتا سورج ایک دن کشمیر کی وادی کو بھارتی غاصبانہ قبضے سے آزاد ہوتے دیکھے گا۔