ری پبلکن پارٹی کے لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ سیاسی پل صراط پر چل کر امریکہ کے دوسری بار صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے 312 الیکٹورل ووٹ جبکہ کملا ہیرس نے 227 ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک حریف کملا ہیرس سے 50 لاکھ پاپولر ووٹوں کی برتری حاصل کی ہے۔ ری پبلکن پارٹی نے کانگریس اور سینٹ دونوں میں اکثریت حاصل کر لی ہے۔ اشیاءضروریہ کی مہنگائی اور غزہ و لبنان کے معصوم لوگوں کے لہو نے ٹرمپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ نے ”جنگ نہیں امن“ کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو پوری دنیا کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ کے دوسرے ملکوں سے تعلقات امریکہ کے قومی مفادات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کی یہی طے شدہ پالیسی ہے۔ جو قارئین پاک امریکہ تعلقات کی بے وفائیوں کی تاریخ جاننا چاہتے ہیں وہ مقبول کتاب ”آزادی سے غلامی تک“ مطبوعہ علم و عرفاں پبلشرز اردو بازار لاہور کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ آج کا کالم صدر ٹرمپ کی کامیابی اور عمران خان کی ممکنہ رہائی کے بارے میں ہے لہذا اس کیلئے ہمیں پاک امریکہ تعلقات پر طائرانہ نظر ڈالنی ہوگی۔ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاءالحق کے دور میں جیل اور نظر بندیوں کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے جلاوطنی اختیار کر لی۔ 1986ءکے اوائل میں انہوں نے امریکہ کا دورہ کیا جب رونلڈ ریگن ری پبلکن امریکی صدر تھے۔ راقم اس وقت کینیڈا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے مجھے بھی اپنے امریکی دورے میں شامل کر لیا۔ پاکستان میں سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو وزیراعظم تھے۔ امریکہ میں لابی کے علاوہ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کے ذریعے بھی اپنی وطن واپسی کا راستہ ہموار کیا۔ وہ اگست 1986ءمیں اپنی جلاوطنی ختم کر کے لاہور واپس آئیں تو ان کا شاندار اور یادگار استقبال کیا گیا جس کا ریکارڈ آج تک کوئی لیڈر نہیں توڑ سکا۔ 1988ءکے انتخابات سے پہلے جنرل ضیاءالحق کی باقیات نے آئی جے آئی تشکیل دےکر بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کی کوشش کی مگر وہ عوامی طاقت سے پاکستان کی پہلی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔ انتخابات کے بعد اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بے نظیر بھٹو کو اقتدار منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف ڈیفنس رچرڈ آرمٹیج اور اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ رچرڈ مرفی خصوصی طور پر پاکستان آئے اور انہوں نے صدر غلام اسحاق اور مرزا اسلم بیگ پر دباو ڈال کر بے نظیر بھٹو کو اقتدار منتقل کرایا۔ جنرل حمید گل مرحوم نے راقم کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بے نظیر کے دور میں 20 اپریل 1989ءمیں پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل ہو گیا بے نظیر بھٹو نے مکمل تعاون کیا۔ سی آئی اے کے اہلکاروں نے جنرل حمید گل سے کہا lady has let us down خاتون نے ہمیں مایوس کیا ہے۔ یہ واقعہ بے نظیر بھٹو کی ذہانت بصیرت حب الوطنی اور سفارت کاری کا شاہکار ہے۔ وہ اپنے عظیم باپ کے قاتلوں سے تعاون حاصل کر کے پہلی خاتون وزیراعظم بھی بن گئیں اور ایٹمی صلاحیت بھی مکمل کر لی۔ جنرل مشرف کے دور حکومت 2000ءمیں میاں نواز شریف جیل میں قید تھے اور ان کو عمر قید کی سزا ہو چکی تھی۔ میاں نواز شریف کی امریکی صدر کلنٹن (ڈیموکریٹ) سے گہری دوستی تھی۔ کلنٹن نے نواز شریف کی رہائی کیلئے سعودی عرب قطر اور یو اے ای کے ممالک پر مشتمل کنسورشیم بنایا اور نواز شریف کو جیل سے رہا کرالیا۔ میاں نواز شریف طویل عرصہ جلاوطن رہے اور 2013ءمیں تیسری بار وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ 2007ءمیں بے نظیر بھٹو نے امریکہ کے صدر جارج بش( ری پبلکن) کی حکومت سے لابی کر کے جنرل پرویز مشرف کیساتھ مفاہمت کر لی جسکے نتیجے میں وہ پاکستان واپس آئیں۔ اگر ان کو شہید نہ کیا جاتا تو وہ پاکستان کی تیسری بار وزیراعظم منتخب ہو جاتیں۔ امریکہ کی پاکستان کے اندرونی امور میں مداخلت ہر دور میں رہی ہے۔
عمران خان نے 2019ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے امریکہ کا پہلا دورہ کیا انکی ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقاتیں بڑی دوستانہ اور خوشگوار رہیں۔ بیگم ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ الگ تصویر بنوائی۔ اس موقع پر پاکستانی کمیونٹی نے واشنگٹن میں کامیاب ریلی کی جس سے ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی مختصر خطاب کیا۔ اس خطاب کے بعد ٹرمپ نے عمران سے کہا Mr Khan you are very popular (مسٹر خان اپ بہت پاپولر ہیں۔) 2023ءمیں تحریک انصاف نے امریکہ میں لابی کے لیے ایک فرم ہائر کی۔ عمران خان کی حامی پاکستانی کمیونٹی اور لابی کمپنی کی کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ کانگرس نے عمران خان کے حق میں تقریباً متفقہ قرارداد منظور کی اور کانگرس کے 60 اراکین نے امریکی صدر جو بائیڈن کے نام پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے سلسلے میں ایک خط بھی لکھا جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین کا دباو بھی موجود ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں ٹرمپ نے مبینہ طور پر پاکستانی کمیونٹی سے وعدہ کیا کہ وہ اگر کامیاب ہو گئے تو نہ صرف عمران خان کو جیل سے رہا کرائیں گے بلکہ ان کیلئے اقتدار کا راستہ بھی ہموار کریں گے۔ عمران خان نے غیرمتوقع طور پر بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ پر ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل کاٹی ہے۔ تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن جیلوں کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ پاکستان مسلسل سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے۔ دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا ہے جس سے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے صوبے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک انصاف بیرونی ممالک سے عمران خان کی رہائی اور پاکستان سے باہر جانے کے لیے دباو ڈلوا رہی ہے اور کئی ملکوں نے ان کو اپنے پاس رکھنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر عمران خان پاکستان سے باہر جانے کا ارادہ کر لیں تو حکومت مفاہمت پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ عمران خان کے آفیشل ٹویٹر اکاونٹ پر امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا گیا ہے اور توقع ظاہر کی گئی ہے کہ وہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹ نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ میں ٹرمپ اور عمران خان دونوں کی تصاویر شیئر کی ہیں اور دونوں کو امن کا سفیر قرار دیا ہے۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ اور عمران خان دونوں پر قاتلانہ حملے ہوئے ان کے خلاف مقدمات دائر کئے گئے۔ تاریخ کے تناظر میں اور زمینی حقائق کے مطابق عین ممکن ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ اپنے وعدے کے مطابق عمران خان کی جیل سے رہائی کی بات کریں۔ افغانستان کیلئے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے ایک ٹویٹر پیغام میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ صدر ٹرمپ عمران خان کی گرفتاری پر توجہ دینگے۔ تاریخ کے تناظر میں پاکستان کی سیاست کا غیرجانبدار تجزیہ کرتے ہوئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی رہائی چند ماہ میں ممکن ہو سکتی ہے اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مڈ ٹرم انتخابات پر مفاہمت ہو سکتی ہے۔