ماحول کی بہتری کے لیے حکومتی اقدامات

میں ایک دفعہ پیرس میں تھا، پتا چلا کہ یہاں پابندی لگ گئی ہے کہ فلاں دن سے مخصوص رجسٹرڈ گاڑیاں ایک ہفتے تک سڑک پر نہیں نکل سکتیں، اس پابندی کے چند دن بعد یوں محسوس ہوا جیسے پیرس اس وقت واقعی خوشبوﺅں کا شہر ہے۔ ذرا بھی فضا میں بو نہیں تھی دھوئیں کی، دھوئیں کے کوئی اثرات نظر نہیں آتے تھے، ورنہ یہ وہی پیرس تھا جہاں سانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔
جاپان میں پابندی ہے کہ گاڑی اتنے سال سڑک پر چل سکتی ہے، اسکے بعد اسے ہر حالت میں سڑک سے اتارنا پڑتا ہے اور دنیا کی سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ میں بیچنا پڑتا ہے۔ یہ مہذب قوموں کا شعار ہے، ہم اپنی فصلیں کاٹتے ہیں اور جو باقی وہاں گھاس پھونس بچ جاتا ہے، اس کو آگ لگا دیتے ہیں۔ مشرقی پنجاب کے کسانوں نے نئی دہلی کی ناک میں دم کر رکھا ہے یعنی دھوئیں سے دہلی تک فضا زہریلی ہے۔ آج کل وہ چاول کی باقیات کو آگ لگا رہے ہیں۔
اسی طرح ہمارے کسان بھی اپنے کھیتوں کی صفائی کے لیے شارٹ کٹ کے طور پر فصلوں کی باقیات کو جلا دیتے ہیں۔آلودگی کو کم کرنے کے لیے درخت تو ہم لگا نہیں رہے بلکہ جو لگے ہوئے ہیں وہ بھی کاٹ کاٹ کر ایندھن کے طورپر جلا رہے ہیں۔ گلگت اور شمالی علاقوں میں چوری کر کے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ اتنا بڑا چھانگا مانگا کا جنگل تھا، وہ تقریباً آدھا بھی نہیں رہ گیا۔ ابھی تو شہروں میں سوئی گیس میسر ہے، لیکن لوگوں کو سوئی گیس کی سہولت نہ میسر رہی تو پھر شہروں میں بھی لوگ چولھے جلائیں گے اور لکڑی جلے گی۔ گوبر کے اپلے بھی جلیں گے، جیسے دیہات میں ہوتا ہے۔ پھر تو ہمارا ملک شاید رہنے کے قابل نہیں رہے گا، اگر ہم نے ابھی سے فوری اقدامات نہ کیے۔
ماحولیاتی خرابی میں پاکستان کا ایک فیصد بھی حصہ نہیں، لیکن پاکستان کو جو نقصان پہنچ رہا ہے، وہ 99 فیصد ہے۔ اسکے ذمہ دار ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں جو ہر طرح کی تابکاری اور ماحولیاتی آلودگیاں پھیلا رہے ہیں۔ ایک دفعہ میں ایک ایسے علاقے میں مکان بنا بیٹھا جہاں سوائے اینٹوں کے بھٹے کے اور کچھ نہیں تھا۔ اس کا زہریلا دھواں 24 گھنٹے ناک میں دم رکھتا، اوپر سے خالی پلاٹوں میں جھگیاں تھی اور وہ لوگ خاص طور پر رات کو مچھر سے بچنے کے لیے ٹائر جلا لیتے تھے، اس پہ تو ہمارا دم ہی گھٹنے لگ جاتا تھا کیونکہ واحد مکان علاقے میں میرا تھا۔ اسی طرح میرے دوستوں سعید آسی اور شریف کیانی نے سبزہ زار میں مکان بنائے، وہاں ان دنوں بکر منڈی کی بدبو تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ وہاں کچھ اور صحافیوں کو بھی پلاٹ ملے اور انھوں نے بھی گھر بنائے اور پھر سب نے مشترکہ جدوجہد سے اس بکر منڈی کو وہاں سے چلتا کیا۔
مجھے یاد ہے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سب سے پہلے ماحولیات کی وزارت پر آصف زرداری صاحب کو فائز کیا گیا، لوگوں نے فقرے کسے کہ اب وہ کارخانوں کو بند کریں گے یا لوگ انھیں رشوت دیں گے۔ بھئی آپ کے کارخانے سے زہریلا دھواں نکل رہا ہے، وہ تو نہیں نکلنا چاہیے، اب جو آدمی انھیں روکے گا، اس کو آپ کرپٹ کہہ دیں، یہ توغلط بات ہے۔ آج جس قدر پاکستان میں آلودگی کا مداوا کرنے اور شجرکاری میں تیزی لانے کے لیے فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے، شاید کبھی نہ تھی۔ بالخصوص سموگ کا لیول دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہمارے ضلع لاہور اور قرب و جوار کے اضلاع میں ہے۔ لاہور دنیا کا گندہ ترین اور آلودہ ترین شہر بن کر رہ گیا ہے، جو بحیثیت قوم ہم سب کے لیے شرمندگی کا مقام ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے ایک اہم اقدام الیکٹرک وہیکل پالیسی ہے، جس کی طرف پاکستان میں 2016ءمیں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں سفر شروع ہوگیا تھا اور 2019ءمیں ایک اہم سنگ میل حاصل کر لیا گیا۔ سرکاری طور پر نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کا مسودہ 2020ءمیں تیارکیا گیا۔ اس پالیسی نے الیکٹرک وہیکل کے لیے پر جوش اہداف مقرر کیے جس میں مینوفیکچررز کے لیے مختلف مراعات شامل ہیں، جیسا کہ مقامی طور پر اسمبل شدہ الیکٹرک وہیکل پر ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس رکھا گیا ہے۔ تاہم مختلف مراعات کے باوجود پاکستان میں گاڑیوں کی الیکٹرک کی طرف منتقلی ایک پیچیدہ عمل ہے۔ ان عملی رکاوٹوں کو دور کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کے ارتقاءنے رفتار پکڑلی ہے، حالانکہ عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں اسکی رفتار کم ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کے ماحولیاتی اور معاشی فوائد کے بارے میں بڑھتی ہوئی آگاہی کے باعث پاکستان روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے ایک قابل عمل متبادل کے طور پر برقی نقل و حرکت کو تلاش کر رہا ہے۔ پاکستان کا ای وی سفر چھوٹے پیمانے پر اقدامات اور الیکٹرک ٹو اور تھری وہیلر کے بتدریج تعارف کے ساتھ شروع ہوا۔ نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی (این ای وی پی) کا مقصد ٹیکس مراعات اور چارجنگ انفراسٹرکچر کو فروغ دینا تھا۔ یہ پالیسی 2030ءتک الیکٹرک گاڑیوں کے لیے 30 فیصد، مسافر گاڑیوں اور 90 فیصد دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے لیے اہداف طے کرتی ہے۔ ماضی قریب میں مقامی مینوفیکچررز، بشمول سازگار جیسی کمپنیوں نے بھی الیکٹرک رکشوں میں قدم رکھا۔
حکومت پاکستان نے ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے اور ان کے ماحولیاتی فوائد کو اجاگر کرنے کے لیے عوامی آگاہی مہم شروع کی ہے جس کا مقصد صارفین کی آگاہی اور ای وی کی قبولیت کو بڑھانا ہے۔ عوامی بیداری اور تعلیمی مہم کو عوامی سمجھ بوجھ اور ای وی کی قبولیت کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس میں ملک گیر تعلیمی مہم شروع کرنا، نصاب میں ای وی ٹیکنالوجی کو شامل کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے ساتھ شراکت داری اور جدید ترین ای وی ٹیکنالوجیز کی نمائش کے لیے تقریبات کا انعقاد شامل ہے۔
عالمی ادارہ صحت، عالمی بینک، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام، موسمیاتی اور صاف فضائی اتحاد کی قیادت میں عالمی مہم بھی جاری ہے۔ مہم کا مقصد فضائی آلودگی کے صحت پر پڑنے والے اثرات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ یہ مہم فضائی آلودگی کے حل کے بارے میں رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے، جیسا کہ گاڑیوں کی نقل و حمل، فضلے کو ٹھکانے لگانے کے انتظام اور ماحول دوست ذرائع توانائی کی فراہمی شامل ہے۔حکومت نے بچوں کو سموگ کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے تعلیمی ادارے دس روز کے لیے فوری طور پر بند کردیے ہیں اور بزرگ افراد سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ سموگ کے دوران بلاضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ زیادہ آلودگی والے شہروں میں ٹریفک پولیس مو¿ثر کردار ادا کررہی ہے۔ لیکن اس مسئلے کی بنیادی جڑ بھارت میں ہے جس کے لیے ماحولیاتی ڈپلومیسی کا آغاز کیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن