ہمارے سامنے پوری دنیا کی تاریخ ایک کھلی کتاب کی طرح عیاں ہے۔ جن گھروں اداروں اور ملکوں نے ترقی کی ہے وہ اجتماعیت کے ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ کوئی معاشرہ ایسا نہیں جو انفرادی کوشش سے کامیاب ہوا ہو۔ قومی ترقی کیلئے جہاں راستہ دکھانے والی دور اندیش قیادت کے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا وہیں قوم کے اعتماد اور قومی یکجہتی کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ جب قوم اکٹھی ہو جائے تو ناممکنات کو ممکنات میں بدلا جا سکتا ہے لیکن جو معاشرہ افراتفری کا شکار ہو، جہاں تقسیم اتنی گہری ہو کہ کوئی کسی کی بات سننے کیلئے تیار نہ ہو، جہاں تنقید کرنے والے کو دشمن تصور کیا جائے، جہاں ٹانگیں کھینچنا قومی فیشن ہو، جہاں مخالف کی ناکامی کو اپنی کامیابی تصور کیا جاتا ہو، جس معاشرے کے تمام طبقات آپس میں دست و گریباں ہوں، جہاں راستہ دینے کی بجائے راستہ روکنے پر فخر محسوس کیا جاتا ہو، جہاں مخالف کے وجود کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو، جہاں دلیل کی بجائے جذبات سے فیصلے کیے جاتے ہوں، جہاں انصاف ناپید ہو وہاں بہتری کی توقع کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں آج کل ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ بہت جلد حالات بدلنے والے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق ہر آنے والے دن غیر یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ قوم کو اندھیرے میں رکھ کر بالا بالا گیمیں ڈالی جا رہی ہیں۔ جن کو ساتھ لے کر چلنا تھا انھیں کہا جا رہا ہے کہ نہ آپ نے بولنا ہے نہ دیکھنا ہے نہ سننا ہے اور نہ سوچنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پبلک کو کچھ پتہ نہیں ملک میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ باوسیلہ لوگ ملک سے بھاگ رہے ہیں اور بے وسیلہ لوگ مایوسی کا لبادہ اوڑھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ حالات ایسے الجھے ہیں کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ ڈور ایسی الجھا بیٹھے ہیں کہ سلجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہم نے سوچا تھاکہ ایک لمبے عرصے کی نگران حکومت حالاتِ بہتر کرنے میں کامیاب ہو جائے گی، پھر کہا جانے لگا کہ انتخابات کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے، پھر فیصلہ کن برتری کی باتیں کی جاتی رہیں۔ اب جبکہ حکومتی اتحاد کو پارلیمنٹ میں دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہے وہ ہر قسم کی قانون سازی بلکہ آئین سازی میں بھی آذاد ہے اور اسے اسٹیبلشمنٹ کا بھی پورا تعاون حاصل ہے، عدلیہ بھی تنگ نہیں کر رہی، انتطامیہ بھی ہروقت حکم بجا لانے کے لیے تیار ہے تو پھر بھی قوم کو سیاسی استحکام کیوں نصیب نہیں ہو رہا۔ صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن اب فیصلہ کن جنگ لڑنے کی باتیں کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کفن پوش احتجاج کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس کا سیدھا صاف مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف واضح کر رہی ہے کہ وہ اب کی بار اگر احتجاج کیلئے باہر نکلے گی تو نتائج حاصل کیے بغیر واپس نہیں آئے گی۔ اب جبکہ حکومت آئینی ترمیم اور اہم ترین قانون بنانے کے بعد خود کو بہت مضبوط تصور کر رہی ہے ایسے میں تحریک انصاف دیوار کو کیوں ٹکر مارنے جا رہی ہے۔ اس حوالے سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طاقتوروں نے اس حکومت سے جو حاصل کرنا تھا کر لیا اب وہ حکومت کیلئے کسی آخری حد تک نہیں جائیں گے۔ دوسری جانب شاید اپوزیشن کو یہ توقع ہو چلی ہے کہ اگر حکومت نے انھیں جائز سیاسی جدوجہد سے روکا تو بین الاقوامی طاقتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے کر حکومت پر دباو آئے گا۔ بہر حال سارے معاملات مزید لڑائی کا پیش خیمہ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت اپوزیشن کے احتجاج کے اعلان پر کہہ رہی ہے اگر تم باہر نکلے تو ایسی پھینٹی لگائیں گے کہ مدتوں یاد رکھو گے۔ ایسے میں کسی گھمسان کے رن کا انتظار کرنے کی بجائے سیاسی قوتوں کو تصادم سے روکنا چاہیے۔ حالاتِ جیسے بھی ہیں ان کی خرابی میں کس نے کتنا حصہ ڈالا ہے اس کو بھول کر ہمیں بہتری کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتوں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کریں اور ان کا کم از کم ایجنڈے پر اتفاق رائے کروائیں۔ ماضی کی رنجشوں کو بھلانے کیلئے اقدامات کیے جائیں تاکہ نفرتوں اور کدورتوں کو ختم کر کے قومی یکجہتی کی طرف بڑھا جائے۔ آخر میں قارئین کیلئے ایک سبق آموز لوک کہانی۔ کسی گاوں میں ایک شخص رہتا تھا جسکے چار بیٹے تھے انکے گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ شہر جا کر محنت مزدوری کرے گا۔ انھوں نے رخت سفر باندھا اور شہر کی طرف چل پڑے راستے میں شام ہو گئی، انھوں نے ایک گھنے درخت کے نیچے رات گزارنے کا فیصلہ کیا اس نے اپنے ایک بیٹے سے کہا جاو کہیں سے پانی ڈھونڈ کر لاو۔ وہ اٹھا اور پانی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ دوسرے کو کہا جاو تم لکڑیاں اکٹھی کر کے لاو۔ وہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کیلئے چلا گیا۔ تیسرے کو کہا جاو تم کہیں سے آگ ڈھونڈ کر لاو۔ وہ آگ لینے چلا گیا۔ درخت پر بیٹھا ایک پرندہ یہ سارا کچھ دیکھ رہا تھا اس نے دیہاتی سے کہا کہ تم نے آگ پانی اور لکڑیاں لانے کیلئے اپنے بیٹوں کو بھیج دیا ہے لیکن تم پکاو گے کیا۔ دیہاتی نے کہا کہ تمھیں پکڑ کر پکائیں گے۔ پرندہ ڈر گیا اس نے کہا آپ مجھے نہ پکڑیں میں آپ کو خزانے کا پتہ بتاتا ہوں۔ پرندے نے بتایا کہ جہاں تم بیٹھے ہو اس کے نیچے خزانہ دفن ہے وہ نکال لو اور ساری زندگی عیش کرو۔ دیہاتی نے اپنے بیٹوں کو کھدائی پر لگایا اور خزانہ نکال کر گاوں واپس چلا گیا۔ اسکا ہمسایہ اس کی خوشحالی سے جلنے لگا اور اسے روز باتوں باتوں میں کریدنے لگا کہ تم اچانک امیر کیسے ہو گئے۔ ایک دن ہمسایہ دیہاتی سے وہ راز اگلوانے میں کامیاب ہو گیا اور اگلے دن اس نے بھی اپنے بیٹوں کو ساتھ لیا اور اسی راستے پر سفر کیلئے روانہ ہو گیا۔ دیہاتی کی بتائی ہوئی نشانیوں کیمطابق جب وہ درخت کے پاس پہنچا تو اس نے بھی درخت کے نیچے پڑاو ڈال لیا اور وہی عمل دہرانے لگا اس نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا جاو دوڑ کر کہیں سے پانی لیکر آو۔ بیٹے نے کہا میں کیوں جاووں، چھوٹے کی ٹانگیں ٹوٹی ہوئی ہیں؟ وہ کیوں نہیں جاتا۔ اس نے درمیانے بیٹے سے کہا جاو تم لکڑیاں اکٹھی کرکے لاو۔ اس نے جواب دیا میں کیوں جاوں یہ کیوں نہیں جاتا۔ تیسرے کو کہا جاو تم آگ ڈھونڈ کر لاو۔ اس نے کہا تم چاہتے ہو میں جل کر مر جاوں۔ ان کو بھیجو۔ درخت پر بیٹھا پرندہ یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا اس نے کہا وہ وہی تھے جو خزانہ لے گئے جاو پہلے اپنے بیٹوں پر کنٹرول کرو۔ ان میں اتفاق پیدا کرو پھر باہر نکلنا۔ یہی حال ہماری قوم کا ہے ہم کہتے ہیں چین نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ انکی قومی یکجہتی کے ہم قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔