ویسے تو پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں مختلف نظریات اور تاریخی وضاحتیں موجود ہیں۔ انہیں آریائی نسل کے باقیات سمجھا جاتا ہے، جو وسطی ایشیائی میدانوں سے مختلف دروں، جیسے درہ باجوڑ، درہ مہمند، درہ تورخم ،درہ خیبر، درہ کرم، درہ ٹوچی اور درہ گومل وغیرہ کے ذریعے آئے تھے۔ ایک گروہ ایسے محققین کا بھی ہے، جو یہ یقین رکھتے ہیں، کہ پشتون یہودیوں کی اولاد ہیں۔ جدید دور میں پشتونوں کی اصل نسل سے متعلق دونوں نظریات اور آراءکو یا تو سوالات کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور یا مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا ہے۔
جدید سوشل سائنس کے ارتقاءکے تناظر میں پرانے نظریات نہ صرف سوالات کی زد میں آئے ہیں، بلکہ مضبوط منطقی، عقلی اور سائنسی شواہد کی روشنی میں مسترد بھی کیے جا چکے ہیں۔ آج کے دور میں بیشتر مورخین، ماہرینِ عمرانیات، اور پشتون معاشرت، معیشت، سیاست، اور مذہب کے سنجیدہ طالب علموں نے ان کی اصل، نسل اور تاریخ پر ایک نیا نقطہ نظر تیار کر کے سامنے لایا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ پشتون معاشرہ مختلف نسلوں کا مجموعہ ہے، جو مختلف ادوار میں مختلف سمتوں سے اس سرزمین پر آئے ہیں اور اس خطے کی اجتماعی ثقافتی بھٹی میں اپنی نسلی شناخت کو تحلیل کر دیا ہے۔ اس سماجی اور ثقافتی امتزاج نے ایک ایسے سماجی گروہ کو جنم دیا ہے، جس نے پشتون کے طور پر نسلی اور قومی شناخت کو فروغ دیا۔ جینیاتی طور پر ایک ملا جلا نسل ہونے کی حیثیت سے ان کا وجود اور سماجی شعور ان کی جغرافیائی خصوصیات سے تشکیل پایا۔ حقیقت یہ ہے، کہ وہ نہ صرف پاک-افغان سرحدی خطے کے اصل باشندے تھے، بلکہ صدیوں تک اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے مشکلات کا شکار بھی رہے ہیں۔ اپنے تاریخی سفر کے دوران پشتونوں کو دو طرح کی جغرافیائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اولاً، وہ ایک ایسے جغرافیائی خطے کے باسی تھے، جو ہمیشہ بیرونی حملوں کا شکار رہا ہے۔ دوم، پشتون معاشرہ اپنی طویل تاریخ کے دوران خانہ بدوش طرز معاشرت اور گلہ بان طرز معیشت کا خوگر تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے کبھی بھی اپنے علاقے کے ساتھ گہری وابستگی، جذباتی تعلق اور مضبوط عہد وفا قائم نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے، کہ وہ ایک مضبوط معیشت، منظم اور مربوط معاشرت اور مستقل طور پر ترقی پذیر ثقافت یا تاریخی ورثہ قائم نہ کر سکے۔ سب سے بڑھ کر ان کا سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ارتقاءہمیشہ بیرونی حملوں سے متاثر ہوتا رہا۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملوں کا شکار رہے اور سب سے پہلے حملہ آوروں کے تشدد کا سامنا کرتے رہے۔ بار بار محکومیت کے نئے تجربات میں، انہیں وقت کے تقاضوں کے تحت ہمیشہ حملہ آوروں کے نظریات، اعتقادات، اصولوں، روایات، اقدار، اور ثقافتی افکار کی پیروی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ دراصل پشتون ثقافت حملوں اور جنگوں کی مسلسل لہروں میں اور حملہ آوروں کے خنجروں اور تلواروں کے سائے میں فروغ نہ پاسکی۔ فطری طور پر ان کی ثقافت اور طرز زندگی ہمیشہ بیرونی حکمرانوں کی اقدار، اصولوں اور روایات سے متاثر ہوتی رہی۔ پشتونوں کی خانہ بدوش اور قبائلی معاشرت ہمیشہ بکھرے ہوئے ریوڑ کی مانند خوف کے عالم میں تغیر پذیر رہی۔ انہیں کبھی بھی امن، سکون اور استحکام کے مواقع اور تجربات سے گزرنے نہیں دیا گیا۔ انکی قسمت کو ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں نے جنگ اور تشدد کے ذریعے متعین کیا۔ جغرافیائی مجبوریوں کی وجہ سے ان کی معاشرت، ثقافت اور معیشت جنگ اور تشدد کی مجبوریوں سے عبارت تھی۔ بیرونی حملہ آوروں نے نہ صرف ان کی ذہنی ساخت کو تشکیل دیا، بلکہ ان کی تاریخ کو بھی مسخ اور ان کی جغرافیہ کی اہمیت کو پس پشت ڈال دیا۔
درحقیقت، پشتونوں نے اپنی تاریخ کے دوران ہمیشہ خود مختاری کا دعویٰ کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے، کہ ان کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں وہ مسلسل محکومی کی حالت میں رہے ہیں، کیونکہ ان کی کمزور جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے چاروں طرف سے ان پر حملے ہوتے رہے۔
چونکہ پشتونخواہ کے سرحدی علاقے مختلف ادوار میں مختلف سلاطین مثلاً یونانی، بدھ مت، فارسی، عرب، منگول، ترک، مغل، سکھ اور آخر میں برطانوی سلطنت کے کناروں پر واقع رہے ہیں، اس لیے وہ عالمی سامراجیت کے لہر در لہر حملوں کے شکار رہے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں پشتون معاشرے کی سیاسی تابعیت کے ساتھ ثقافتی محکومیت بھی ہوئی۔ ان پر غیر ملکی طاقتوں نے حکومت کی، لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اپنی زمین پر آزاد سمجھا۔ انہیں بار بار حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور ہر حملے کے بعد وہ پہلی فرصت میں بری طرح پِس جاتے اور پھر جنگجو بن کر حملہ آور فوجوں میں بھرتی کرائے جاتے اور ا±نہیں قریبی ہمسایہ اقوام کے خلاف استعمال کیا جاتا۔
حملوں کی اذیتیں برداشت کرنے کے بعد وہ حملہ آوروں کے ساتھ شامل ہوجاتے اور انہیں ہندوستان کے میدانی علاقوں کی طرف پیش قدمی میں مدد فراہم کرتے۔ تکلیف دہ بات یہ تھی، کہ پشتونوں کو ہمیشہ غیر ملکی حملہ آوروں کے لیے اپنی ہی زمین اور لوگوں کی فتح میں معاون اور مددگار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ وہ ایک طرف حملوں کی اذیتیں سہتے اور دوسری طرف فتوحات کے مزے لوٹتے۔ وہ ایک شکست خوردہ اور مغلوب قوم کے طور پر بھی اپنی محکومیت محسوس کرتے اور ساتھ ہی ساتھ غیر ملکی حملہ آوروں کی خدمت میں دیگر اقوام کے خلاف فتوحات کے نشے سے سرشار بھی ہوتے۔ اس نفسیاتی پیچیدگی اور دوہرے تشخص کے باعث، پشتون ہمیشہ غلامی اور آزادی یا شکست اور فتح میں فرق کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں شکستوں اور فتوحات کے اس پیچیدہ جال میں، انہوں نے ایک طرف محکومیت کی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور دوسری طرف خام خیالی میں آزادی اور خودمختاری کی لذتیں محسوس کیں۔ محکوم لوگ ہونے کے ناطے انہوں نے ہمیشہ اپنے بیرونی حکمرانوں کے مقرر کردہ اصولوں کی پیروی کی ہے۔ وہ ہمیشہ غلط فہمی یا خوش فہمی سے خود کو حکمران اور غیر ملکی حملہ آوروں کی طرح محسوس کرتے۔
پشتونوں نے ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ مل کر اپنی ہی سرزمین کو فتح کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہی تاثر مغل اور برطانوی سامراجیت کے سرکاری مورخین نے بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، جو یقیناً اپنے سامراجی مفادات کے پیش نظر تاریخ لکھاکرتے تھے۔ تاریخ اور جغرافیہ کے غلط تصور نے پشتونوں میں ایک غلط شعور پیدا کیا، جو دراصل حملہ آوروں نے ان کے اجتماعی ذہن میں بٹھا کر رکھدیا تھا۔ پشتون جغرافیائی اعتبار سے اپنی تاریخ کے دوران غلامی کے تجربات سے گزرا ہے، مگر وہ اپنی تاریخ میں ایک رومانوی، خام خیالی اور غلط تصور کے تحت فخر محسوس کرتے رہے، کہ وہ اس زمین کے عبوری مالک ہیں۔