فلسطین پرمزید خاموش نہیں بیٹھ سکتے  اسلامی سربراہی کانفرنس کا اعلامیہ

Nov 13, 2024

اداریہ

سعودی عرب میں منعقد ہونے والے عرب لیگ اور او آئی سی ممالک کے مشترکہ سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی اورفاقہ کشی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اسرائیل کی رکنیت معطل کرے۔عالمی برادری اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرےاور اسے ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ روکا جائے۔ اجلاس میں 50 سے زائد سربراہان نے شرکت کی۔اجلاس غزہ و دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور لبنان کی صورتحال پر بلایا گیا تھا۔مسلم سربراہان کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ مزید خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔جنگ بندی کے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔بین الاقوامی برادری ایران اور اردن کی سالمیت اور خود مختاری کے احترام کے لیے اسرائیل کو پابند کرے۔ خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔ لبنان پر جاری اسرائیلی حملے نے لبنان کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔سعودی ولی عہد کا کہنا تھاکہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرے۔وزیراعظم شہباز شریف کا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد کرایا جائے۔جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جائے۔ غزہ میں جرائم اور نسل کشی جاری ہے۔ دنیا کے صرفِ نظر کرنے سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔جنگ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔فلسطینی وزیراعظم محمود عباس نے عرب اسلامی سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے پر پابندی کے ہولناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اسرائیل کی رکنیت معطل کرے اور بین الاقوامی برادری فلسطینیوں کے خلاف یہودی آبادکاروں کی جاری دہشت گردی روکنے میں مدد کرے۔
 ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل فلسطین کا وجود ختم کر رہا ہے جس کے خلاف تمام مسلم ممالک متحد ہو کر آواز اٹھائیں اور اپنے اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں۔ اردن کے حکمران شاہ عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ خطے میں جاری جنگوں کی فوری روک تھام کی جائے۔ دو ریاستی حل کیلئے ماحول سازگار بنانے کی راہ ہموار کی جائے۔ شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے خطاب میں کہا کہ خطے میں قتل عام اور نسل کشی کی روک تھام وقت کا تقاضا ہے۔ خطے کو ایسے ملک سے خطرہ ہے جو بین الاقوامی قوانین کا احترام نہیں کرتا۔ لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے کہا کہ اسرائیلی حملوں کے باعث لبنان تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ لبنان پر اسرائیلی حملوں سے تباہی کا تخمینہ 5 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے۔ اسرائیل نے لبنان پر حملے کر کے جنیوا معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ بارہ لاکھ سے زائد لبنانی شہری نقل مکانی پر مجبور کر دیئے گئے۔ مصری صدر جنرل السیسی نے کہا کہ کشیدہ صورتحال کے باعث خطے اور دنیا کا امن خطرے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ غزہ پٹی کے فلسطینیوں کا منصوبے کے تحت قتل عام کیا گیا۔ جنگ کی بجائے دو ریاستی حل پر عملدرآمد کیا جائے۔ صدر سینیگال نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل نے فلسطین پر غیرقانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیلی مظالم پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔
او آئی سی اسلامی ممالک کا مضبوط اتحاد ہے مگر اس کی فعالیت آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ اس کو پوری طرح سے فعال کرنے کی ضرورت ہے۔او آئی سی اسلامی ممالک کا وسیع تر اتحاد ہے جبکہ عرب لیگ میں علاقائی ممالک شامل ہیں۔ اگر یہی عرب لیگ کے رکن ممالک عملی اقدامات پر متفق ہو جاتے ہیں تو اسرائیل کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں بچتی۔ 1973ءمیں صرف تین ممالک نے اسرائیل کو نکیل ڈال دی تھی۔ مصر کی شرائط کے تحت ہی کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر اسرائیل دستخط کرنے پر تیار ہوا تھا۔
اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی متفقہ قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے جنگ بندی پر تیار نظر نہیں آتا۔یہ اس کی رعونت تکبر ، طاقت کا زعم اور کچھ عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کا بھی اثر ہے۔اسرائیل کی جارحیت کی پشت پناہی امریکہ اور اس کے کچھ طفیلی ممالک کرتے ہیں۔
 آج ایک بھی مسلم ملک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن نہیں ہے مگر ویٹو پاور رکھنے والے دو ممالک روس اور چین فلسطین اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مسلمان ممالک کے ساتھ کھڑے ہیں۔اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کر چکا ہے۔اس کے ایسے قبیح جرائم اس کی اقوام متحدہ کی رکنیت خارج کرنے اور اس پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے متقاضی ہیں۔سر دست اسرائیل کے مظالم کے خاتمے کے لیے جنگ بندی کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔یہ پابندیاں اقوام متحدہ کے ذریعے لگوائی جائیں۔اس حوالے سے مسلم ممالک کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ پابندیوں پر عمل کے لیے عالمی برادری کو آن بورڈ لینا ہوگا۔
اسرائیلی جارحیت جس نہج پر پہنچ چکی ہے‘ وہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہی نہیں‘ انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ہے‘ جس پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبردار عالمی اداروں کی بے حسی افسوسناک ہے۔ اگر اب بھی اسکی جارحیت کو نہ روکا گیا تو کرہ ارض کی تباہی نوشتہ دیوار ہے۔ بالخصوص الحادی قوتوں کے ہاتھوں مسلمان ملکوں کی تباہی یقینی ہے۔ لہٰذا مسلم دنیا کو ان قوتوں کیخلاف متحد ہو کر کوئی مو¿ثر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔

مزیدخبریں