عرب اسلامی کانفرنس بالکل نئی اصطلاح ہے بہرحال اس نام سے کانفرنس ہوئی اور قضیّہ لبنان و فلسطین پر پہلی بار مسلمان اور عرب ممالک نے ایک ٹھوس موقف پر اتفاق کیا۔ غزہ میں جنگ بند کی جائے، لبنان پر حملہ روکا جائے اور دو ریاستی حل کی طرف بڑھا جائے۔
اتنی جلد بازی کی اگرچہ ضرورت نہیں تھی۔ غزہ صفحہ ہستی سے مٹتا جا رہا ہے، کچھ انتظار کر لیتے تو غزہ کے نابود ہو جانے کے بعد مسئلہ ازخود ہی حل ہو جاتا۔ لیکن جلد بازی کی ضرورت یوں پڑی کہ اسرائیل نے لبنان پر بھی حملہ کر دیا۔ لبنان کو بچایا جانا ضروری ہے۔
سب سے دلچسپ تقریر ترکی والوں کی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ لگتا ہے، اسرائیل غزہ اور غزہ والوں کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ یعنی ایک سال بعد ترکی کو بھی اس بات کا پتہ چل گیا جس کا پتہ باقی دنیا کو کئی ماہ پہلے ہی چل چکا تھا۔ عرب اسلامی کانفرنس نے، خیر ، مسئلے کا حل بتا دیا۔ لیکن اسرائیل کی مالی اور اقتصادی امداد بند کریں، ترکی ایندھن ہی روک لے اورعرب ملک فنڈنگ۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ عرب اسلامی کانفرنس دراصل نومنتخب صدر ٹرمپ کو پیغام ہے۔ ٹرمپ جنوری میں اقتدار سنبھالتے ہی ’’مدر آف آل ڈیلز، یا ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ یعنی ابراھام اکارڈ پر عمل کرانا چاہتے ہیں۔ چاہتے کیا ہیں تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ تمام عرب ممالک، بالخصوص سعودی عرب والوں سے اسرائیل کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ ’’تمام‘‘ کے لفظ سے غلط فہمی پیدا نہ ہو، بیشتر عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ اس سے برادرانہ تعلقات بھی بنا چکے ہیں، تو من شدی من تو شدم کا مرحلہ بھی طے کر چکے ہیں۔ اکّا دکّا عرب ملک رہ گئے ہیں، وہ بھی محض رسمی کارروائی کے منتظر ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اپنی اپنی رائے عامہ کو مطمئن کرنے کیلئے امریکہ سے کچھ ایسے اقدامات چاہتے ہیں کہ جن کو دکھا کر وہ اپنے عوام سے کہہ سکیں کہ دیکھو، امریکہ نے اتنا کچھ کر دیا، اب اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہرج نہیں۔
عوام ایک طرف، ایلیٹ اور حکمران طبقے کی رائے کافی بدل گئی ہے۔ امریکہ نے انہیں یہ پٹّی پڑھائی ہے اور عرب اشرافیہ اس پٹّی کے زیر اثر اس طرح کی باتیں، اپنی ’’ایلیٹ‘‘ محفلوں میں کھلے عام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے کہ ہم بنو اسمعیل، اسرائیل بنو اسحاق۔ گویا ہم دونوں کزن ہیں اور ہم دو کزنوں کے بیج ، اس تیسری قوم یعنی غزہ والوں کا کیا کام۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کی بدترین اور بھیانک نسل کشی پر عرب میڈیا میں مذمت تو دور کی بات، افسوس کا ایک لفظ بھی نظر نہیں آتا۔ اماراتیوں کے ہاں تو الٹا، جشن کی فضا ہے۔
______
پاکستان نے فلسطین پر اتنے سخت اور مضبوط موقف کا اظہار پہلے کبھی نہیں کیا جتنا وہ اب کر رہا ہے اور مسلسل کر رہا ہے۔ زیادہ ٹھیک بات یہ ہوئی کہ بھٹو مرحوم کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے۔ فلسطین پر بھٹو کا موقف واضح، مضبوط اور دوٹوک تھا۔ اس کے بعد سارا عرصہ اسرائیل کے بارے میں ہمارا رویہ ’’محتاط‘‘ رہا۔ جنرل باجوہ کے دور میں تو مین سٹریم میڈیا پر باجوہ گروپ کے ریٹائرڈ بزرگ حضرات قطار اندر قطار اسرائیل کی وکالت کرتے نظر آئے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کوئی درجن بھر سخت تقاریر غزہ والوں کی نسل کشی کے خلاف کر چکے، اسرائیل کی کھلی اور بار بار مذمت بھی کی۔ 52 میں سے کسی اور مسلمان ملک نے اس تقریر کا عشر عشیر اثر رکھنے والی تقریر بھی نہیں کی۔ سوال سا پیدا ہوتا ہے کہ:
یہ فیضان نظر ہے یا ’’حافظ‘‘ کی کرامت ہے۔
اور جواب یہ ہے کہ ’’حافظ ‘‘ ہی کی کرامت ہے۔ حافظ صاحب نے پے درپے کور کمانڈرز کانفرنسز کے ذریعے سامنے نظر آنے والی حکومت کو یہ ہمت دلائی۔ پاکستان کی یہ جرات امریکہ کیلئے بھی حیران کن ہے۔ عرب اسلامی کانفرنس میں واحد جاندار تقریر وزیر اعظم شہباز شریف کی تھی اور یہ تقریر اسرائیل کے سرپرست اعلیٰ ٹرمپ کی ’’تاریخی فتح‘‘ کے بعد کی گئی جس کے اپنے ایک معنے ہیں۔
غزہ تو برباد ہو گیا، دو ریاستی حل (منصفانہ حل تو کب کا آسودہ لحد‘‘ ہو چکا۔) کی امید ابھی باقی ہے۔ ٹرمپ نیتن یاہو سے بڑھ کر غزہ والوں کا صفایا چاہتا ہے لیکن اسے مدر آف آل ڈیلز کا سہرا سجانے کا بھی شوق فراداں سے سوا ہے اور اس سہرے کی ماتھے پر ’’آویزگی‘‘ صرف اسی صورت ہو سکتی ہے جب سعودی عرب مان جائے۔
سعودی عرب اپنے مطالبے پر ڈٹ گیا تو ٹرمپ کو جنگ بندی کروانا ہوگی۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ امریکہ سعودی عرب کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، سفارتی یا معاشی دبائو کا کوئی ہتھیار سعودی عرب کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا۔ ہاں، فوجی چڑھائی کر سکتا ہے لیکن اس کا امکان ہے نہ حالات اجازت دیں گے۔
گویا دو ریاستی حل کی طرف آگے بڑھنے کا انحصار اب سعودی عرب پر ہے۔
______
وزیر اعظم پاکستان نے اپنی تقریر میں فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس شریف کو اس کا دارالحکومت بنانے کا مطالبہ کیا۔
القدس شریف کون سا شہر ہے؟۔ اس نام کا کوئی شہر فلسطین، عربستان یا پوری دنیا میں نہیں ہے۔ شاید ان کا اشارہ بیت المقدس کی طرف ہو۔ پرانا نام یروشلم تھا، مسلمانوں نے بدل کر بیت المقدس کر دیا۔ بیت المقدس ایک شہر ہے، القدس کا خیالی نام ایک شرارت آمیز سازش ہے جس کی تفصیل پر روشنی ڈالنا مناسب نہیں۔
بیت المقدس کی اہمیت یہ ہے کہ یہاں مسجد اقصیٰ ہے، جب قرآن پاک نازل ہوا تو اس کی ایک آیت (بنی اسرائیل1 ) میں بتایا گیا کہ اللہ کی نظر میں مسجد اقصیٰ وجود رکھتی ہے۔ یعنی جگہ موجود ہے، عمارت گرا دی، پہلے ایرانیوں نے، پھر دوبارہ تعمیر ہوئی تو رومیوں نے۔ یعنی یہ اصول وضح ہو گیا کہ مسجد گرا دی جائے، اس کی ایک اینٹ بھی باقی نہ رہے تب بھی وہ جگہ بدستور مسجد ہے۔
مسجد اقصیٰ کی تیسری تعمیر حضرت عمر فاروقؓنے فرمائی۔ تعمیر اوّل پیغمبر سلمان علیہ السلام نے کی تھی۔ پیغمبر نے مسجد بنائی تھی، بعدازاں اسے ’’ہیکل‘‘ کا نام دے دیا گیا۔
مسجد اقصیٰ والا بیت المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہیے، القدس شریف کا خیال نگر نہیں۔
______
اسرائیل کے وزیر خزانہ کا بیان کل ہی سامنے آیا کہ عنقریب مغربی کنارہ اسرائیل کا حصہ ہو گا۔
لیجئے صاحب، دو ریاستی حل کے مطالبے کو تو اسرائیل نے کفن پہنا دیا۔ آدھے کے قریب مغربی کنارا تو اسرائیل پہلے ہی اپنی غیر قانونی بستیوں اور قابض فو ج کے ذریعے اپنے قبضے میں لے چکا ہے۔ باقی کا اعلان بھی کر دیا۔ غزہ آہستہ آہستہ نیستی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
دو ریاستی حل کی آخری امید اب ٹرمپ حکومت اور سعودی عرب کے اتفاق رائے میں ہے۔ باقی عالم اسلام صفر ضرب 52 صفر سے کچھ زیادہ نہیں۔