میرے ذہن میں اٹکا "سسٹم" کا لفظ

Nov 13, 2024

نصرت جاوید

گزرے ہفتے کی رات نیند نہیں آرہی تھی۔ سرہانے نیویارک ٹائمز رکھا تھا۔ اسے اٹھالیا۔ وہاں سپین کی ایک معروف ناول نگار کا انگریزی میں ترجمہ ہوا ایک مضمون چھپا ہوا تھا۔ صبح اخبار پڑھتے ہوئے میں نے اسے نظرانداز کردیا تھا۔ وجہ اس مضمون کی سرخی تھی جو عندیہ دے رہی تھی کہ وہ سپین میں آئے سیلاب کے بارے میں ہے۔ حال ہی میں آئے اس سیلاب نے بے پناہ تباہی مچائی ہے۔ سینکڑوں گھر اس کی وجہ سے پانی کے ساتھ آئے کیچڑتلے دب کر اب مٹی کے پہاڑوں کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ نظرانداز کئے اس مضمون کو محض وقت گزاری کے لئے پڑھنا شروع کیا۔ ڈرامائی ابتدائیے نے مگر چونکا دیا۔ ابتدائیے نے توجہ کو ہتھیالیا تو تحریر کی سلاست نے اختتام تک پہنچادیا۔
نظربظاہر یہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو بیان کرتا ایک مضمون تھا۔ مقصد اس کا سپین کی حکمران جماعت کی مذمت بھی تھا جو مشکل کی گھڑی میں عوام کی مدد کرتی نظر نہ آئی۔ حکومتی اہل کاروں کی عدم موجودگی میں پورے سپین سے کئی نوجوان بیلچے وغیرہ لے کر سیلاب زدہ علاقوں تک پہنچ گئے۔ لوگوں نے انہیں پیار سے ’’بیلچہ بریگیڈ‘‘ کا نام دیا۔نوجوان رضا کاروں نے ہزاروں لوگوں کے گھروں کو ’’مٹی سے برآمد‘‘ کرنے میں کئی دن لگائے۔ ان کی کاوشوں کی وجہ سے سپین میں ان دنوں ایک نعرہ مشہور ہورہا ہے جس کا آسان اردو ترجمہ یہ ہوسکتا ہے کہ ’’صرف عوام ہی عوام کے مددگار ہوسکتے ہیں‘‘۔
جس تناظر میں یہ نعرہ بلند ہوا وہ برجستہ طورپر مجھے بہت معقول سنائی دیا۔ سیلاب کے پانی میں گھرے اور مٹی کے ڈھیر تلے دبے مکانوں سے نکل کر کھلے آسمان تلے بیٹھے عوام کو جب ریاست اور اس کے ادارے مشکل کی گھڑی میں کہیں نظر ہی نہ آئیں تو ’’بیلچہ بریگیڈ‘‘ کے رضا کاروں کی لگن ’’عوام‘‘ کو ’’عوام‘‘ ہی سے رجوع کرنے کو مجبور کردیتی ہے۔ جو مضمون میں نے پڑھا اسے لکھنے والی خاتون مگر ’’عوام ہی عوام کے مددگارہوسکتے ہیں‘‘ والے نعرے سے گھبرائی ہوئی تھی۔ اسے خدشہ تھا کہ مذکورہ نعرے کی وجہ سے اس کے ملک میں فرانکو جیسا ’’دیدہ ور‘‘ ایک بار پھر نمودار ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ فرانکو ایک آمر تھا جس نے کئی برسوں تک پھیلی خانہ جنگی پر قابو پانے میں کامیاب ہوجانے کے بعد سپین کو چار دہائیوں تک سفاک ترین فسطائیت تلے دبائے رکھا۔ مضمون نگار مصررہی کہ عوامی مسائل سے بے نیاز ہوئے سیاستدان واقعتا نفرت کے مستحق ہیں۔ ان سے نفرت مگر سیاست سے لاتعلقی میں نہیں بدلنی چاہیے۔ عوام اگر ریاست اور اس کے سیاستدانوں سے بیزار ہوکر ’’عوام ہی عوام کے مددگار ہوسکتے ہیں‘‘ جیسے دلفریب نعروں سے مسحور ہونا شروع ہوجائیں تو ریاستی اداروں ہی سے کوئی شخص ’’دیدہ ور‘‘ کی صورت اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور خود کو قوم کا مسیحا ثابت کرتے ہوئے بالآخر سفاک ترین آمر بن جاتا ہے۔ ’’عوام ہی عوام کے مددگار ہوسکتے ہیں‘‘ جیسے نعروں سے لہٰذا خوف کھانا چاہیے۔
مذکورہ نعرے کی سادگی کے پیچھے چھپی ’’پرکاری‘‘ کو عیاں کرنے کے لئے خاتون مضمون نگارنے یاد یہ بھی دلایا کہ خدانخواستہ آپ کے دل پر اچانک جان لیوا حملہ ہوجائے تو آپ کو فوری طورپر ’’عوام‘‘ نہیں دل کا ڈاکٹر درکار ہوتا ہے۔ گاڑی چلتے ہوئے رک جائے تو اسے ’’عوام‘‘ نہیں بلکہ کارکا مکینک ہی ٹھیک کرسکتا ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں خاتون مضمون نگار یہ پیغام اجاگر کرتی رہی کہ بدترین حالات میں بھی عوام کو اپنے ہاں کے ریاستی نظام کو بہتر سے بہتر اور موثر سے موثر تر بنانے کی کوششیں جاری رکھنا ہوں گی۔ سیاست اور سیاستدانوں سے اْکتاکر اگر آپ ریاستی نظام ہی سے لاتعلق ہوجائیں تو حکمران طبقات مزید ڈھٹائی سے قومی وسائل کا ذاتی اغراض کے لئے بے دریغ استحصال میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
خاتون ناول نگار نے اپنی سوچ کی حمایت میں ان ماہرین معیشت کا ذکر بھی کیا جنہیں حال ہی میں نوبل پرائز دیا گیا ہے۔ اس بار یہ انعام تین ماہرین معیشت کو ملا ہے۔ ان تینوں نے طویل تحقیق کے بعد دریافت یہ کیا کہ کوئی بھی ملک محض اپنے جغرافیہ، موسمی حالات یا قدرتی وسائل جیسے تیل اور گیس وغیرہ کی وجہ سے خوش حالی کی حتمی مثال نہیں بنا۔ ملکوں کی تقدیر کسی ’’دیدہ ور‘‘ آمر نے بھی نہیں بدلی۔ وہی ملک ترقی اور خوشحالی کی حتمی مثالیں بننے میں کامیاب ہوئے جن کے ریاستی ادارے کوئی موثر ’’سسٹم‘‘ بنانے میں کامیاب رہے۔ ریاست اگر عوام کے حقیقی نمائندوں کی نگرانی میں ترقی وخوشحالی پر توجہ مرکوز رکھتا کوئی ’’سسٹم‘‘ تیار کرنے میں کامیاب ہوجائے تو اپنے معاشرے کو اضطراب سے بچالیتی ہے۔
’’سسٹم‘‘ کا لفظ میرے ذہن میں مذکورہ مضمون پڑھنے کے بعد اٹک گیا۔ پیر کے روز اسلام آباد میں آئی ایم ایف کا وفد آیا۔ اس کی آمد کی وجہ 7بلین ڈالر کی وہ ’’امدادی‘‘ رقم ہے جو عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ ہماری معیشت کو درست سمت کی جانب دھکیلنے کے لئے مختلف قسطوں میں ادا کرے گا۔ فی الوقت جو وفد آیا ہوا ہے وہ نظر بظاہر ’’دوستانہ انداز‘‘ میں یہ جائزہ لے رہا ہے کہ گزشتہ چار مہینوں کے دوران پاکستان کے ٹیکس حکام وہ رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں جسے بطور ہدف آئی ایم ایف کے روبرو رکھا گیا تھا۔ ہمارے ٹیکس حکام مطلوبہ رقم کے حصول میں ناکام رہے۔ناکامی تاہم مایوس کن نہیں۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام میں بہتری کے امکانات اپنی جگہ موجود ہیں۔ 
جو امکانات مگر معاشی علم کے اعتبار سے مجھ جیسے جاہل کو بھی نظر آتے ہیں انہیں بروئے کار لانے میں لیکن ہماری حکومت ہچکچارہی ہے۔ ملک بھر میں پھیلی دوکانیں جہاں میں اور آپ اپنی روزمرہّ ضروریات کے حصول کے لئے جاتے ہیں ابھی تک ٹیکس کے نیٹ ورک کا حصہ نہیں بن پائی ہیں۔ آئی ایم ایف سے وعدہ ہوا تھا کہ دکانداروں کو ہر صورت ’’ٹیکس نیٹ‘‘ میں لایا جائے گا جس کی بدولت میرے اور آپ کی جانب سے خریدی اشیاء پر لگاجنرل سیلز ٹیکس قومی خزانے میں جائے گا۔ اس ضمن میں جو نظام تشکیل دینے کا وعدہ ہوا تھاوہ آئی ایم ایف کے وفد کو زمین پر لیکن کہیں دکھائی نہیں دیا۔دوکاندار ٹیکس نیٹ میں نہ آئے تو میرے اور آپ جیسے تنخواہ دار منی بجٹ کی وجہ سے مزید ٹیکس دینے کو مجبور ہوسکتے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل اور پٹرول بہت سستا ہوگیا تب بھی ہم ’’لیوی‘‘ کی وجہ سے مہنگا ترین پٹرول خریدنے کو مجبور ہوں گے۔

مزیدخبریں