کراچی (کامرس رپورٹر) ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان سلیم اللہ نے کہا ہے کہ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہم اسلامی معاشی نظام بنا سکیں نہ کہ محض اسلامی بینکنگ نظام بنائیں، حقیقی فوائد تب حاصل ہوں گے جب ہم اسلامی معاشی نظام کے اہداف کو حاصل کریں گے، ایسا نظام جس میں سب کی فلاح و بہبود ہوگی۔ وہ منگل کو مقامی ہوٹل میں 8ویں انٹرنیشنل اسلامک بینکنگ و فنانس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ کانفرنس سے سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین اور شمشاد اختر، معروف صنعتکار بشیر جان محمد نے بھی خطاب کیا۔ سلیم اللہ نے کہا کہ ہم جس ماحول میں ہیں جہاں صرف اپنی صنعتی طاقت کو بڑھانے کیلئے ماحول کو برباد کردیا گیا، اسلامی فنانسنگ ایک اخلاقی فنانسنگ ہے، جو ایسے کاروباروں کے ساتھ شراکت داری کی اجازت نہیں دیتا، جو ماحولیات کو نقصان پہنچائیں، دنیا کو ایک ایسا نظام دیں جو بہتر اقدار مہیا کرسکے۔ سابق گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ نئے سسٹم میں منتقلی کیلئے وسیع منظر نامے میں معاشرے کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ موجودہ قانونی نظام استعماریت کی باقیات ہے جو کہ غریب کی استطاعت سے دور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظام میں امیر اور غریب کو برابری کی بنیاد پر انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔ سوات میں طالبان کے قبضے کے بعد قاضی منصفانہ فیصلے کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کو سپورٹ ملی۔ پاکستان کا نظامِ انصاف تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پاکستان کے ٹیکس کے نظام میں ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کا ٹیکس نظام اسلامی بینکنگ سے ساتھ چل پائے گا۔ غریب آدمی کو کسی ریگولیٹری ایجنسی تک رسائی نہیں ہے۔ بشیر جان محمد نے کہا کہ کئی بینک اپنے کسٹمرز کے بجائے اپنے منافع کو دیکھتے ہیں، اسلامی بینکنگ لوگوں کو زیادہ محفوظ اور منافع بخش لگتے ہیں، 55 سے 60 فیصد تک ہمارے کارپوریٹ ٹیکسز ہیں، ہماری کتنی بیلنس شیٹس درست ہیں؟، معاشی خوشحالی تب آئے گی جب ہم طویل مدتی قرضوں پر توجہ دیں گے، کوئی رباء کو سپورٹ نہیں کرسکتا۔