لبنان میں فائر بندی معاہدے کی زیادہ تر شقیں تقریبا تیار ہیں۔ یہ بات ایک سیاسی ذریعے نے العربیہ نیوز چینل کو بتائی۔ ذریعے نے واضح کیا ہے کہ زمینی صورت حال لبنان میں فائر بندی کے مذاکرات میں پیش رفت کا پتا دے رہی ہے۔ مزید یہ کہ امریکا اس وقت لبنان میں سرحدی نگراں کمیٹی کا مسئلہ حل کرنے پر کام کر رہا ہے۔ لبنان میں جنگ رکوانے کا یہ ایک بین الاقوامی سنہری موقع ہے۔ذریعے کے مطابق اگر ابھی کسی حل تک نہ پہنچا گیا تو لبنان میں جنگ کئی ماہ طویل ہو سکتی ہے۔ادھر امریکی صدر جو بائیڈن کے مشیر آموس ہوکشٹائن نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ لبنان میں فائر بندی کے معاہدے تک جلد پہنچنے کا موقع ہے۔ہوکشٹائن کا کہنا تھا کہ "میں بھرپور امید رکھتا ہوں کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے"۔امریکی مشیر نے باور کرایا کہ لبنان میں فائر بندی کے معاہدے یا اس پر عمل درآمد کی نگرانی میں روس کی کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔دوسری جانب اسرائیل کے نئے وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے پیر کے روز اسرائیلی چیف آف اسٹاف کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات میں واضح کر دیا کہ "اسرائیل کے اہداف پورے ہونے تک لبنان میں فائر بندی ہر گز نہیں ہو گی۔ ان اہداف میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا، اسے دریائے لیطانی کے پیچھے دھکیلنا اور شمالی اسرائیل کی آبادی کا سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹنا شامل ہے"۔یاد رہے کہ لبنانی حکومت جس میں حزب اللہ بھی شامل ہے، کئی بار مطالبہ کر چکی ہے کہ اقوام متحدہ کی اس قرار داد کی مدد سے فائر بندی عمل میں لائی جائے جس نے 2006 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ کو مکمل طور پر اختتام تک پہنچایا تھا۔اس قرار داد میں یہ بات شامل ہے کہ لیطانی کے جنوب کا علاقہ لبنانی ریاستی اداروں کے اسلحے کے سوا دیگر تمام ہتھیاروں سے پاک کیا جائے۔ لبنان اور اسرائیل ایک دوسرے پر قرار داد کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کرتے ہیں۔اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں لبنان میں دس لاکھ سے زیادہ افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے سبب انسانی بحران پیدا ہو گیا۔دوسری جانب شمالی اسرائیل پر حزب اللہ کے راکٹ اور میزائل حملوں کے سبب دسیوں ہزار اسرائیلی گذشتہ برس علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔