کیری لوگر بل یا آہنی شکنجہ؟

Oct 13, 2009

ڈاکٹر اعجاز احسن
ڈاکٹر اعجاز احسن................
انگریزی زبان میں سٹریٹ جیکٹ ایک ایسے لباس کو کہتے ہیں جو انتہائی مضبوط میٹریل سے بنایا گیا ہو۔ اسکے ذریعہ کسی شخص کے بازوؤں کو اسکے جسم سے باندھ دیا جاتا ہے۔
اس لباس کا استعمال ایسے فرد پر کیا جاتا ہے جس کا دماغی توازن درست نہ ہو اور جس کے بارے میں یہ خدشہ ہو کہ وہ خود کو یا کسی اور فرد کو نقصان نہ پہنچائے۔
امریکی سینٹ نے یہ جو کیری لوگر بل منظور کیا ہے جسکے ذریعہ پاکستان کو 1.5 ارب ڈالر سالانہ پانچ سال کیلئے ملنے والے ہیں۔ایک ایسا ہی لباس ہے جو ہمارے ملک کو پہنایا جارہا ہے تاکہ اسکی تنابیں کس لی جائیں اور یہ اپنے علاوہ کسی اور کو بھی نقصان نہ پہنچائے۔
اس میں درج کی گئی شرائط جن پر پاکستان نے عمل کرنا ہے، بین الاقوامی ڈپلومیسی میں ایک انوکھے اور عجیب الخلقت معاہدہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیے: ہر سال کے فنڈز صرف اس وقت پاکستان کو ملنا شروع ہونگے، جب امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ متعلقہ سینٹ کمیٹی کو یہ سرٹیفکیٹ مہیا کریگا کہ: حکومت پاکستان نے (بشمول اس کی فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے) دہشت گرد گروہوں کو، خصوصاً ان گروہوں کو جنہوں نے افغانستان میں امریکی یا اتحادی افواج یا ہمسایہ ممالک کی سرزمین یا آبادی کیخلاف حملے کئے ہوئے ہیں، امداد فراہم کرنا بند کر دی ہے ۔ (گویا ماضی میں یہ انہیں امداد دیتی رہی ہیں) القاعدہ، طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں مثلاً لشکر طیبہ اور جیش محمد کو اپنی سرزمین سے ہمسایہ ممالک پر حملے کرنے سے روکنا شروع کیا ہوا ہے، فاٹا میں دہشت گرد کیمپ بند کردئیے ہیں، ملک کے دوسرے حصوں بشمول مرید کے اور کوئٹہ میں دہشت گردی کے اڈے بند کروا رہی ہے۔
… منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کیخلاف قوانین کو زیادہ فعال بنانے میں مصروف ہے
O پاکستان کی افواج سیاسی اور عدالتی نظام کو تخریب کاری کا نشانہ نہیں بنا رہی ہیں۔
O پاکستان امریکہ کی طرف سے ایٹمی مواد مہیا کرنیوالے نیٹ ورکس کا قلع قمع کرنے اور ایسے نیٹ ورکس میں ملوث پاکستانی شہریوں کیساتھ بلاواسطہ رابطہ مہیا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو رہا ہے۔ (ظاہر ہے یہ ڈاکٹر قدیر خان سے براہ راست رابطہ کے متعلق ہے)
قارئین کرام! اب ذرا ایسے مضامین کی فہرست ملاحظہ فرمائے جن کے سلسلے میں ’’مثبت پیش رفت‘‘ کا سرٹیفکیٹ ہر سال امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے سینیٹ کمیٹیوں کو دینا ہے۔
شہری آزادیاں، سیاسی حقوق، احتساب، حکومتی کارکردگی، ویکسی نیشن کی شرح، صحت پر حکومتی اخراجات، لڑکیوں کی پرائمری تعلیم مکمل کرنے کی شرح، پرائمری تعلیم پر حکومتی اخراجات، قومی ذرائع آمدن کا بندوبست، کاروباری حالات، زمینی راستہ اور ملکیت کے حقوق، تجارتی پالیسی، اقتصادی پالیسی کا معیار، مہنگائی پر کنٹرول، اور مالیاتی پالیسی۔
(شاید ایک چیز شامل ہونے سے رہ گئی ہے‘ یعنی پاکستان میں خاوندوں اور بیویوں کے درمیان تعلقات) بہرحال آئیے، بل کی طرف واپس آتے ہیں۔ جن امور کی مانیٹرنگ کی جائیگی، ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں۔
…اخراجات کا ضیاع اور فراڈ
… اس امر کا اندازہ لگایا جائے گا کہ حکومت پاکستان کس حد تک افواج پاکستان پر مؤثر کنٹرول رکھتی ہے۔ بشمول اسکے کہ سویلین حکمران اور پارلیمنٹ کس حد تک فوج کے بجٹ، کمانڈ سٹرکچر، سینئر فوجی افسران کی ترقیوں، سویلین حکومت کی طرف سے پلاننگ اور رہنمائی اور فوجیوں کی سویلین انتظامیہ میں ملوث ہونے پر مؤثر کنٹرول رکھتی ہے۔
اس بل کی شرائط ایسی ہیں جو کہ شاید وفاقی حکومت لوکل باڈیوں پر بھی عائد نہ کرتی ہوگی۔ راقم کے اندازہ کیمطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان سے بھی اس سے زیادہ کڑی شرائط منظور نہ کرائی گئی ہونگی۔
ادھر بل کے پاس ہونے پر حکومتی افراد نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی ہیں۔ یہ سب کہنے کے بعد اتنا عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ خطیر رقوم کے خرچ کے سلسلے میں ہمارے ارباب بست و کشاد اتنے کمزور واقع ہوئے ہیں کہ کم ازکم جہاں تک پراجیکٹس پر اٹھنے والے اخراجات کی مانیٹرنگ کا تعلق ہے انہیں ایسے ہی آہنی شکنجے میں جکڑنے کی ضرورت تھی۔
بہرحال ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جب تک ہم اپنے حکمرانوں کے وطیروں کو برداشت کرتے جائینگے‘ ہمیں ایسی ہی ذلت کا سامنا کرنا پڑیگا۔
مزیدخبریں