خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

کون کیا ہے اور کون کون ایسا ہے؟ سوچیں اور چند جھلکیاں پڑھ لیں۔ مغل شاہی سفر زوال پر رواں دواں تھی۔ شہنشاہ جہاں سے اس کے دارالحکومت دہلی کے امراء نے دہلی میں متعین ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایجنٹ کی آزادی کی شکایت کی ’’وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے لوگوں کو خرید رہا ہے ساتھ ملا رہا ہے دبا رہا ہے شہنشاہ معظم آپ اسے روکتے کیوں نہیں؟‘‘ شہنشاہ معظم کا جواب کتابوں میں درج ہے کہ ’’میں اسے اس لئے نہیں روکتا کہ وہ کمپنی yے میری شکایت نہ کر دے‘‘ رومی سلطنت کے زوال کے اسباب و حالات کے بارے میں ایک ناول ہے۔ نام جس کا ہے ROBEکسی درمیانہ درجے کے فوجی افسر نے اپنے بڑے افسر کی شکایت کی ’’اسے تو نہ فوج کی عزت کا خیال ہے نہ ملک اور قوم کی عزت کا خیال ہے اور نہ ہی اپنی ذات اور عہدے کے وقار کا کوئی خیال ہے وہ تو جو جی چاہتا ہے کرتا ہے اور ہمیں بھی ایسے احکام جاری کرتا ہے جن کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا‘‘ شکایت سننے والے نے پوچھا ’’تم جانتے ہو اس کا باپ کون تھا؟‘‘ شکایت کرنے والے تو بتا دیا شکایت سننے والے نے پوچھا ’’اور اس کی ماں؟‘‘ شکایت کرنے والے نے اس کی ماں کی بھی اصل نسل بتا دی تو شکایت سننے والے نے کہا تھا ’’اس کے باوجود تم سمجھتے ہو کہ وہ گھٹیا کام نہیں کرے گا اور رومی تہذیب کی اعلیٰ قدروں کی پاسداری کرے گا؟ جب ایسوں کو اختیار مل جائے تو انہیں یقین نہیں آیا کرتا کہ ایسا انقلاب آ گیا ہے اور اس انقلاب پر یقین کرنے کے لئے وہ خاندانی لوگوں کو گھٹیا احکام پر عمل کرنے کو کہتے ہیں اور اپنی خاندانی محرومیوں کو جلد از جلد پورا کرکے بڑا بن جانے کی ایسی کوششیں شروع کر دیا کرتے ہیں مجھے اس سے زیادہ تجھ پر حیرانی ہے کہ تم اس کی اصل اور نسل کو جانتے ہوئے بھی اس سے امید رکھتے ہو کہ وہ گھٹیا حرکتیں نہیں کرے گا گھٹیا احکام جاری نہیں کرے گا‘‘ ہم نے ’’سول اور فوجی سازشیں‘‘ نئی نئی لکھی تھی لوگ پڑھ رہے تھے وہی لوگ جو کتاب شناس ہوتے ہیں اسلام آباد گئے تو ایک ایسے ہی وفاقی سیکرٹری نے کہا ’’ایک اہم چیز رہ گئی ہے وہ یہ کہ جن بھی فوجی کمانڈروں نے حکومت پر قبضہ کیا تھا ان سب کے باپ فوج میں معمولی سے ملازم ہوتے تھے جن کی بیویوں کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا فوج میں کپتان بن جائے جب فوجی چھائونیوں میں پرورش پانے والا کسی ایسی ماں کا بیٹا حادثات زمانہ کے سبب ملک کی فوج کا سربراہ بن جائے تو سوچو وہ کیسا ہو گا اور کیا کرے گا اس کے ماں باپ نے اور خود اس نے تو خواب بھی نہیں دیکھا تھا کہ اس کو بھی جیپ تک مل سکتی ہے اور جب ایسے کسی کو سب کچھ دینے کا اختیار مل جائے تو سوچو وہ کیا کرے گا؟ جب یورپی یونین بن رہی تھی تو برطانیہ کی وزیراعظم تھیچر نے اپنے ملک کے اہل علم و دانش سے پوچھا تھا کہ ہمیں ایسی یونین میں شامل ہو جانا چاہئے جس میں جرمن قوم بھی شامل ہو؟ اہل تاریخ نے تاریخی حوالوں سے اور اہل سائنس نے جینز کے تجزیہ سے اپنی اپنی رپورٹوں میں لکھا تھا کہ جرمن قوم یورپی یونین میں بھی اپنی برتری قائم کرنے کی کوشش کرے گی اور ہمیں نیچے لگانے کی جدوجہد کرتی رہے گی۔ اس کی فطرت بدل نہیں سکتی اس لئے ہمیں اس یونین میں مکمل طور پر شامل نہیں ہونا چاہئے۔ اسی رپورٹ کی روشنی میں برطانیہ نے آج تک یورپی یونین کی مکمل رکنیت سے مکمل پرہیز کیا ہے۔ ہم نہر کے کنارے کنارے جا رہے تھے اشفاق احمد خاں مرحوم اسلام میں انسانوں کی برابری پر لیکچر دے رہے تھے۔ چودھری سردار محمد مرحوم ان کی ہر بات کی پرزور تائید کیا کرتے تھے۔ عادت سے مجبور کہہ لیں عدم اتفاق مجھے کرنا پڑ رہا تھا میں نے چودھری صاحب سے کہا کوئی کیکر کا درخت آئے تو گاڑی رکوا لینا انہوں نے قہقہہ لگایا اور ڈرائیور سے کہا ’’کیکر کے پاس گاڑی روک لینا ڈوگر نے مسواک لینا ہے‘‘ کیکر بہت پرانا تھا تھا چودھری صاحب نے ایک اور قہقہہ لگایا ’’چڑھ جائو گے اس پر؟‘‘ اشفاق احمد خاں اردو سائنس بورڈ کے سربراہ رہے تھے پھولوں کے بارے میں بڑا وسیع علم رکھتے تھے عرض کیا ’’خاں صاحب اس کیکر کے درخت میں گلاب کا پیوند لگا دیں‘‘ خاں صاحب نے کہا ’’کیکر میں گلاب کا پیوند؟ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ ان دونوں کا تعلق تو الگ الگ خاندانوں سے ہے کیکر اور خاندان سے ہے گلاب کے خاندان سے تو اس کے جینز کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ پیوند تو وہیں لگ سکتا ہے جہاں کوئی خاندانی تعلق ہو؟ عرض کیا میں بھی تو یہی کہتا ہوں کہ
خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
اسلام میں انسان حقوق کے حوالے سے سب برابر ہیں۔ صلاحیتوں کے حوالے سے نہیں پھر بات تاریخ کی طرف نکل گئی تو پھر کون کیا ہے اور کون کیوں ایسا ہے اور کون کس کے ساتھ ہے اور کیوں ساتھ ہے؟ دانائے روم فرماتے ہیںترجمہ: یہ کہ آقا کانوں تک عیب میں ڈوبا ہوا ہے لیکن کوئی بھی لالچی اپنے لالچ کی وجہ سے اس کے عیب نہیں دیکھتا آقا کے مال نے (جو وہ لالچی کو دے سکتا ہے) اس کے عیبوں کو چھپایا ہوا ہے اور آقا کے لالچ نے اور اس کے پیروکار لالچیوں کے لالچ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے باندھا ہوا ہے‘‘ اور غنی کاشمیری کہتا ہے
یہ کہ دولت دنیا کسی کے عیب دور نہیں کر سکتی کہ دوات سے چہرے پر جمی عیبوں کی سیاہی کے داغ مٹائے نہیں جا سکتے اور جہاں سیاہی دلوں اور ضمیروں پر جم چکی ہو؟ کیا خیال ہے؟ کر سکتا ہے کوئی اپنے خاندانی پس منظر اور جینز سے بغاوت؟ کون کیا تھا؟ کیا ہوتا تھا؟ کہاں سے آیا ہے اور کیسے آیا ہوا ہے؟ اس کو دیکھیں اور کاغذی پھولوں سے خوشبو کی امیدیں لگا کر اپنے دل دکھی نہ کریں۔

ای پیپر دی نیشن