”سرجن مجید نظامی صاحب“

پنجاب یونیورسٹی آل انڈیا کی بہت پرانی اور اعلیٰ معیار کی یونیورسٹی ہے۔ اس سے تعلیم یافتہ طالب علم C.S.S کرکے یا فوج میں شمولیت کرکے بڑے بڑے ہندوستان کے عہدوں پر فائز رہے ہیں اور ابھی اس کا معیار اسی طرح بلند ہے جیسے انگریز کے وقت میں تھا۔ لیکن مجھے تعجب اس بات پر ہوا ہے کہ جناب مجید نظامی صاحب کو ڈاکٹر کی ڈگری عطا کرکے پنجاب یونیورسٹی کی اعلیٰ قیادت نے اپنا قد و قامت پست کر لیا ہے۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
-1کلمہ حق ہمیشہ کہنے اور لکھنے والا شخص صحافت کی تاریخ میں ہمارے ملک میں صرف مجید نظامی صاحب ہیں۔
-2 نظریہ تحریک پاکستان کی Doctrine کا موجد اور اس کاروان کو لیڈر شپ فراہم کرنے والے واحد محترم نظامی صاحب ہیں
-3 قائداعظم صاحب کے دست راست اور پاکستان بنانے والے دونوں محترم بھائی مرحوم حمید نظامی صاحب اور محترم مجید نظامی صاحب ہیں۔
-4 صحافت کے شعبہ میں پیسہ نہ بنانے والے شخص کا نام گرامی مجید نظامی ہے
-5 میں بھی بنک کے ان عہدوں پر فائز رہا ہوں جہاں پر میں نے قریب سے بڑے ناموں والے اینکر پرسن، صحافی، مالکان شعبہ صحافت کو دیکھا لیکن اکثر معاملات میں وہ ثابت قدم نہ رہے اور دباﺅ کے آگے جھک گئے۔ لیکن واحد نام محترم مجید نظامی صاحب کا ہے۔
-6 میں یہ بھی واضح کر دوں کہ زندگی میں،میں نے شاید ایک یا دو دفعہ کسی میٹنگ میں ان کی آواز سنی ہو گی۔ میری ان سے کبھی ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ میں صرف بچپن سے نوائے وقت اخبار کا مطالعہ کرتا تھا لہٰذا میں جو عرض کر رہا ہوں یہ ایک حقیقت ہے۔ ابھی میرے ذاتی مراسم دوسرے اخبارات کے مالکان سے بڑے گہرے تھے اور وہ اکثر میرے پاس ملنے کام و کاج کےلئے آتے رہتے تھے لیکن یہ شخصیت میرے پاس کسی کام کے سلسلے میں نہیں آئی اور اگر آتی تو ان کا کافی فائدہ ہو سکتا تھا۔
-7 ایک سیاسی دور میں جناب مجید نظامی صاحب کو صدر پاکستان کا عہدہ بھی آفر ہوا تھا لیکن انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تو لکھائی پڑھائی والے صحافی ہیں لہٰذا ان کو صدارت یا سیاست میں شامل ہونے کا کوئی شوق نہیں ہے۔
-8 جناب نظامی صاحب کی خارجہ امور پر سوچ (vision)خاص طور پر بھارت اور امریکہ کے متعلق ان کی دانش مندی کی غمازی کرتی ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس سے کبھی بھی پاکستان کو اچھائی کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ امریکہ دوستی کے روپ میں پاکستان کے مفاد کا دشمن ہے اور ہر دفعہ ضرورت پر اس نے ہمیں مایوس کیا ہے۔ اس سوچ کو ہمارے دفتر خارجہ کو اپنی خارجہ پالیسی کا corner stone بنانا چاہئے اور دوستی، تجارت کی بات کرنے کی بجائے کشمیر سیاچن اورسرکریک کی ہمیشہ بات کرنی چاہئے۔
اگر میں لکھنا شروع کروں تو اس کی تفصیل کبھی ختم نہیں ہو گی اور نہ ہی میں کسی شاہنامہ کے قصیدے لکھنے والا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کو میں نے چند الفاظ میں بیان کیا ہے۔
آخر میں اب میری درخواست پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سینٹ کے ممبران سے یہ ہے کہ آپ نے مجید نظامی صاحب کو ڈاکٹر کا اعزاز تو دے دیا میرے خیال میں ایک ڈاکٹر تو کسی مریض کی تشخیص کرکے اس کو دوائی وغیرہ لکھ دیتا ہے۔ وہ کسی خاص بیماری کا ماہر نہیں ہوتا اس لئے اس کو ڈاکٹر کہتے ہیں۔مکمل معالج سرجن ہوتا ہے جو کہ نشتر کے ساتھ بیماری کی جڑ کاٹ دیتا ہے تاکہ بیماری مکمل طور پر ٹھیک ٹھاک ہو جائے۔
ہماری قوم اور سیاسی فوجی قیادت کا بھی یہی حال ہے۔ ہم ایک مریض بن چکے ہیں۔ قوم بے حس ہے۔ اس کو روٹی کپڑا چاہئے۔ معاشی طور پر قوم مفلوج ہو چکی ہے اور سیاسی قیادت نے قوم کو بڑا مایوس کیا ہے اور یہ مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ کرپشن، لاقانونیت، بے روزگاری، اداروں کا ٹکراﺅ اور یہ حکومت بیمار مریض بن چکی ہے اور یہ فیل ہو چکی ہے جس کے منفی اثرات ریاست پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اس کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے۔ یہ سرجیکل اپریشن چاہتی ہے اور اس ساری بیماری کی نشاندہی سرجن مجید نظامی صاحب بڑے عرصہ سے کر رہے ہیں لہٰذا پنجاب یونیورسٹی کو محترم مجید نظامی صاحب کو سرجن کی ڈگری سے نوازنا چاہئے جس کے وہ اہل ہیں۔

ای پیپر دی نیشن