”حکومتی یا کوئی اور پریشر ؟“

سپورٹس رپورٹر
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے لیکن بدقسمتی سے مسلسل زوال کا شکار چلا آرہا ہے۔ 2010ءکی ایشین گیمز میں 20 سال بعد ملنے والے گولڈ میڈل نے پاکستانی ہاکی شائقین کو امید کی ایک کرن دکھائی تھی کہ قومی کھیل کا مستقبل ایک مرتبہ پھر روشن ہونے جا رہا ہے۔ اس بات کو تقریباً 2 سال مکمل ہونے کو ہیں کہ قومی ٹیم نے کسی بڑے ٹورنامنٹ میں کوئی اچھا رزلٹ حاصل نہیں کیا جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ کے ساتھ حکومت کا جتنا تعاون رہا ہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حکومت نے قومی کھیل کو ترقی دینے کے لئے پی ایچ ایف کی ہر ڈیمانڈ کو پورا کرتے ہوئے ہر سال کھیل کی ضرورت کے مطابق فنڈز جاری کئے یہ سلسلہ کہیں بھی رکا نہیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو جب بھی فنڈز کی ضرورت محسوس ہوئی تو حکومت کی جانب سے فوری طور پر فنڈز مہیا کئے جاتے رہے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے حکومت سے فنڈز مانگے ہوں اور اسے انکار کی صورت میں جواب ملا ہو۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیدار صدر قاسم ضیاءاور سیکرٹری آصف باجوہ کسی حد تک خوش قسمت بھی ہیں کہ حکمرانوں کی جانب سے انہیں بھرپور موقع دیا گیا ہے کہ وہ قومی کھیل کی ترقی کے لئے جو بھی اقدام اٹھائیں گے انہیں مکمل سپورٹ کیا جائے گا۔ 2010ءکے عالمی کپ ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم کی شرمناک 12ویں پوزیشن آئی جبکہ 2011ءکی نیوزی لینڈ میں کھیلی جانے والی چیمپئنز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم نے آٹھ ٹیموں میں سے ساتویں پوزیشن حاصل کی۔ 2012ءمیں پاکستان ٹیم نے لندن اولمپک ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کی اس ٹورنامنٹ کا رزلٹ چار سال قبل چین کے شہر بیجنگ میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ 2008ءمیں قومی ٹیم نے اگر آٹھویں پوزیشن حاصل کی تھی تو 2012ءکے میگا ایونٹ میں پاکستان ٹیم صرف ایک درجہ ہی ترقی کرکے ساتویں پوزیشن حاصل کر سکی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے کھیل کی ترقی کے لئے بہت سے اقدامات کئے جن میںملک بھر میں اکیڈمز کا قیام ایک احسن اقدام تھا تاکہ مقامی نوجوان کھلاڑیوں کو اپنے گھر کی دہلیز پر ہی ہاکی کھیلنے کا موقع میسر آسکے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے پہلے مرحلے میں ٹرائلز کے بعد جن کھلاڑیوں کو اکیڈمز میں شامل کیا تھا تقریباً 2 سال بعد تمام اکیڈمز سے ان کھلاڑیوں کو فارغ کرکے ٹرائلز کے ذریعے نئے کھلاڑیوں کو اکیڈمی میں شامل کر لیا۔ اکیڈمز سے وابستہ کوچنگ سٹاف کو پی ایچ ایف کے اس فیصلے پر بڑی حیرانگی ہوئی تھی کہ جن کھلاڑیوں پر دو سال محنت کی گئی ہے انہیں فارغ کرکے نئے کھلاڑیوں پر نئے سرے سے محنت کرنے کے احکامات صادر فرما دئیے گئے۔
لندن اولمپک 2012ءمیں اچھا رزلٹ نہ آنے کی بنا پر پاکستان ہاکی فیڈریشن ایک مرتبہ پھر دبا¶ کا شکار ہو گئی ہے۔ سابق اولمپئنز کی تنقید کے علاوہ حکومتی دبا¶ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ تمام صورتحال نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کو اپنے سخت حریفوں کی طرف جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ گذشتہ چار سال سے پاکستان ہاکی فیڈریشن اپنے حریفوں کی سخت تنقید کی زد میں رہی آج ان حریفوں کی باتوں کو مانتے ہوئے انہیں عہدے دینا شروع ہو گئی ہے اس تمام عمل کے پیچھے حکومت کا کتنا پریشر ہے یا پھر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی جانب سے کوئی ہدایات ہیں اس بات کا اندازا آنے والے وقت میں بخوبی ہو جائے گا۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نےایف آئی ایچ کے ماسٹر کوچ طاہر زمان کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلہ میں فیڈریشن کے حکام اور طاہر زمان کے درمیان ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں جس میں کسی حد تک معاملات طے بھی پا گئے ہیں۔ پی ایچ ایف سیکرٹری نے فوری طور پر اس بات کا اعلان نہیں کیا کہ انہوں نے طاہر زمان کو کیا ذمہ داریاں سونپی ہیں تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ طاہر زمان کو دو سال کے لئے پاکستان ہاکی کاکنسلٹنٹ مقرر کیا گیا ہے جو پاکستان بھر میں ہاکی کے لئے کام کریں گے۔ طاہر زمان جو کہ ماسٹر کوچ ہیں براہ راست قومی ہاکی ٹیم کے ساتھ کام نہیں کر سکیں گے۔ طاہر زمان کے خیال میں پی ایچ ایف انہیں اگر کوئی ذمہ داریاں دے گا تو وہ مکمل بااختیار ہونی چاہئے۔ پاکستان ہاکی جس سطح پر پہنچ گئی ہے اسے واپس آنے میں چار سال کا عرصہ درکار ہے ان کے بیان کو مدنظر رکھا جائے تو اس کا صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کا 2014ءکا عالمی کپ جیتنے کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی رہے گا۔ طاہر زمان کا کہنا ہے کہ انہیں کام کرنے کے لئے مطلوبہ سٹاف جس کی مجھے ضرورت ہو گی مہیا کرنا پی ایچ ایف کی ذمہ داری ہو گی۔پاکستان ہاکی فیڈریشن نے طاہر زمان کو کتنا بااختیار کنسلٹنٹ مقرر کیا ہے اس بات کا اندازا آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن