ہفتہ ‘ 25 ذیقعد 1433ھ 13 اکتوبر2012 ئ

لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے: کراچی میں لوڈشیڈنگ تقریباً ختم ہوگئی،پنجاب میں ایسا انتظام کیوں نہیں کیاجاسکتا۔
 سیدھی سی بات ہے کہ پنجاب سندھ نہیں اور نہ اُس کے سر پر سندھی ٹوپی ہے جو سندھ کو لوڈشیڈنگ سے محروم اور پنجاب کو معمور رکھے ہوئے ہے،لاہور عدالت عالیہ نے بڑی اعلیٰ بات کی ہے اور وہ بات بھی کرڈالی ہے جو غالب نے اپنے محبوب کے بارے کی تھی اور ہمارے عوام اب اپنے ممدوح چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی شان میں وہی شعر پیش کرتے ہیں....
 دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
 اگر تو یہ پنجاب میں لوڈشیڈنگ ختم کرنا حکومت پنجاب کے بس میں ہوتا تو خادم اعلیٰ تو یوں شدید گرمیاں تمبو میں ہاتھ کا پنکھا جھلتے نہ گزار دیتے۔یہ کرم اُس صاحبِ گرما گرم کا ہے جو ایوان صدرکی ٹھنڈی فضاﺅں کو براستہ پنجاب سندھ منتقل کر رہے ہیں،اب وزیراعلیٰ پنجاب کیا کریں،البتہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اگر اس بے انصافی اور بندر بانٹ پر کوئی قانونی گرفت کرسکتے ہیں تو یہ کارنامہ سرانجام دے ڈالیںشاید اس سے قانون کے لمبے ہاتھ کوئی تار ادھر بھی لے آئیں اور پنجاب بھی روشن ہوجائے جس نے پیپلز پارٹی کو اُس وقت روشنی دی جب وہ تاریک فضاﺅں میں بھٹک رہی تھی۔غالب سے تصرف کی معذرت کے ساتھ....
 غم اگرچہ جاں گسل ہے پر کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم لوڈشیڈنگ ہوتا
٭....٭....٭....٭....٭
لاس اینجلس میں اسلام دشمن فلم کے پروڈیوسر کو عدالت نے دوبارہ جیل بھیج دیا، ملزم نیکولا بیسلے کو ہتھکڑی لگا کر لایا گیا۔ پروبیشن کی خلاف ورزی پر سماعت 9نومبر تک ملتوی ۔
امریکہ کو بُرا کہتے کہتے ہم خود بُرے ہوگئے،پیچھے رہ گئے،دہشت گردی نے پرے جمالئے، معیشت برباد ہوگئی،توانائی غائب ہوگئی، حالانکہ امریکہ نے کبھی ہمیں بُرا نہیں کہا،کبھی ہمارا بُرا نہ چاہا اگر ہم اُسے بُرا سمجھتے ہیں تودلیل لائیں اور بُرے کو اس کے گھر تک پہنچائیں،امریکہ تہذیب و اخلاق کی بات کرتا ہے،اُس نے عراق کو درست کردیا، افغانستان کی مرمت کرنے کے ساتھ ہمارا بھی قبلہ راست کردیا مگر ہم ہیں کہ راہِ راست پر آنے سے انکاری ہیں ایک سپر پاور سے یاری نے ہمیں اس کے باوجود بہت کچھ دیا، ہم اُسے بُرا مانتے ہیں اور اپنوں کو نہیں پوچھتے کہ امریکہ جو 64 برس سے ڈالر دے رہا ہے وہ پاکستان کے غریب عوام تک کس نے نہیں پہنچنے دئیے،قوم آج سوال اُٹھائے کہ آخر اندھی کا حق کیوں مارا۔ امریکہ کو چاہئے کہ ہمیں ایسی متقی پرہیز گار قیادت فراہم کرے جو کم از کم بیرونی امداد تو ہم تک ڈنڈی مارے بغیر پہنچنے دے اور یہ ہمارے حکمران جنہیں امریکہ نہیں پوچھتا ان ظالموں نے ہمیں خط غربت سے اوپر نہ جانے دیا اور کچھ زیرہ ہمارے منہ میں ڈالا بھی تو بقول اختر شیرانی....
بہت دل کرکے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی د ی ہے
چمن مانگا تھا پر اُس نے بمشکل اک کلی دی ہے
 پاکستان کے عوام امریکہ سے براہِ راست ہوجائیں اور ایسی دوستی گانٹھیں کہ بیچ میں سے یہ حکمرانوں کی گانٹھ نکل جائے۔
٭....٭....٭....٭....٭
 دفتر خارجہ کے ترجمان کہتے ہیں: ملالہ پر حملہ ملکی مستقبل کی امید پر حملہ ہے۔
خبر نامکمل سی نظر آتی ہے کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ حملہ کن لوگوں نے کیا۔ اگر دفتر خارجہ بھی دفتر داخلہ کی طرح محنت کرے تو آج رحمن ملک کی طرح وزیر خارجہ دعویٰ کرسکتی تھیں کہ ہم نے ملالہ کے دشمن نہ صرف پکڑ لئے بلکہ ” ظالمان“ کی شناخت بھی کرلی....
 دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
 بلاشبہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے ملالہ ہمارا مستقبل ہے اور اُس پر حملہ ہمارے مستقبل پر ڈرون حملہ ہے۔اگر ملالہ کے ساتھ اُن سینکڑوں ملالاﺅں کو بھی شامل کرلیاجائے جو شمالی وزیرستان کی چٹانوں تلے بے گوروکفن پڑی ہیں یا خوف و ڈر سے چار دیواری میں بغیر تعلیم کی روشنی کے بند پڑی ہیںتو دفتر خارجہ کے اس موقف کو تقویت مل جاتی کہ ہمارے مستقبل پر حملہ ہر طرف سے جاری ہے،طالبان بڑے ”ظالمان“ ہیں کہ وہ اصل کفر یعنی جہالت کو فروغ دینے کے حق میں ہیں۔ حضور پر پہلی وحی یہ نازل ہوئی کہ ” اقرائ“ یعنی ” پڑھو“۔گویا مستقبل کے ساتھ آخرت بھی خطرے میں ہے، یہ دہشت گردجو ہمارے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، ظالمان ہی ہیں،چاہے اپنا نام طالبان ہی کیوں نا رکھ لیںلیکن عوام ہرگز اس چالبازی سے دھوکہ نہ کھائیں۔
آج امریکہ نے جتنی ترقی کی ہے وہ قوم کے مردوزن کو تعلیم فراہم کرنے کے باعث کی ہے،ہم نے علم کی قدر نہ کی اور ہمارے اندر موجود دہشت گرد جنہیں طالبان کہتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کی خواتین علم کی روشنی سے روشناس ہوں، وزیراعظم نے بڑا اچھا فیصلہ کیا ہے کہ ملالہ کی عیادت کی اور تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ اب پاکستان سے ” ظالم“ کا خوف اتاریں اور ہماری بچیوں کو سکول کی راہ دکھائیں۔
٭....٭....٭....٭....٭
 

ای پیپر دی نیشن