دفتر خارجہ کے ترجمان معظم خاں نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت دوطرفہ مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت اور خواہش رکھتے ہیں تاہم اگر چین، امریکہ اور روس جیسے دوست ممالک مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوئی کردار ادا کرسکیں تو اسکا خیرمقدم کیا جائیگا۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس بریفنگ کے دوران سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ دیگر ایشوز پر پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے جس کی روشنی میں صدر آصف علی زرداری جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران باور کراچکے ہیں کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انکے بقول پاکستان اور بھارت دونوں سمجھدار ملک ہیں اور وہ اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے روسی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ¿ پاکستان کو مفید قرار دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان اور روس کے دوطرفہ تعلقات میں قابل ذکر بہتری آئی ہے۔ روسی وزیر خارجہ پاکستان آئے ہیں تو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روس کا دورہ کیا ہے جبکہ روسی صدر کے دورہ¿ پاکستان کی تاریخوں پر دونوں ملک کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ملالہ یوسفزئی پر حملہ کرنیوالے تحریک طالبان کا مرکزافغانستان میں ہونے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ اسکی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہیں تاہم ملالہ پر حملہ کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔
دفتر خارجہ کے نئے ترجمان کی جانب سے پاکستان، بھارت تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر کے پاکستان، بھارت مذاکرات کے ذریعے حل کے معاملے میں جس خوش فہمی کا اظہار کیا گیاہے اسکی بنیاد پر بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ انہیں خود بھی مسئلہ کشمیر اور پاکستان، بھارت تعلقات کے معاملہ میں مفصل بریفنگ لینے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلہ پر اب تک ہونیوالے پاکستان، بھارت مذاکرات کی ناکامی کے پس منظر میں اس رائے کا اظہار کرنا ناممکن ہے کہ پاکستان کی طرح بھارت بھی سمجھداری کے ساتھ کشمیر سمیت تمام دوطرفہ تنازعات خود حل کرنے میں سنجیدہ ہے جبکہ حقیقت اسکے قطعی برعکس ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر تو بھارت کا اپنا پیدا کردہ ہے جس نے قیام پاکستان کے وقت تقسیم ہند کے ایجنڈے کی روشنی میں مسلم آبادی کی غالب اکثریت کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اپنے طے کردہ ایجنڈے کے مطابق وادی¿ کشمیر میں اپنی افواج بھجوا کر اسکے بڑے حصے پر قابض ہوگیا۔ بعدازاں بھارت خود ہی کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لےکر گیا جبکہ یو این سلامتی کونسل او جنرل اسمبلی دونوں نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کی ہدائت کی مگر بھارت اپنی ہی درخواست پر صادر ہونیوالے یو این سلامتی کونسل کے اس فیصلے سے منحرف ہوگیا اور بندوق کے زور پر کشمیری عوام کی استصواب کیلئے اٹھائی جانیوالی آواز اور انکی جدوجہد آزادی کو دبانے کی راہ اختیار کرلی ۔ اسکے ساتھ ہی اس نے کشمیر پر اٹوٹ انگ کی رٹ لگاتے ہوئے اپنے آئین میں ترمیم کرلی اور مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دیدیا۔
بانی پاکستان قائداعظم کو شروع دن سے بنیاءبھارتی قیادت کے عزائم کا ادراک تھا اس لئے انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیکر اسے دشمن کے خونیں پنجے سے چھڑانے کی حکمت عملی طے کی اور افواج پاکستان کے برطانوی سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی افواج داخل کرنے اور اسے بھارتی افواج کے تسلط سے آزاد کرانے کی ہدائت کی تاہم جنرل گریسی نے یہ کہہ کر پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظمؒ کے حکم کی تعمیل سے انکار کردیا کہ وہ فوجی پیشقدمی کیلئے اپنے برطانوی کمانڈر انچیف مقیم دہلی جنرل آکنلک کے احکام کے تابع ہیں۔ اگر اس وقت ہی بھارتی افواج سے کشمیر کا قبضہ چھڑا لیا گیا ہوتا تو بھارت کو ہماری سلامتی اور آزادی و خودمختاری کیخلاف اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے اظہار یا کسی قسم کی پیشرفت کرنے کی کبھی جرا¿ت نہ ہوتی مگر اس نے پاکستان کو شروع دن سے ہی کمزور کرکے منتشر کرنے کی حکمت عملی کے تحت پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر اپنا تسلط جمایا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ کشمیر کے راستے پاکستان جانیوالے دریاﺅں کے پانی سے ہی پاکستان کی زمین زرخیز ہے اور اسکی زراعت ترقی کررہی ہے جس سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔ قائداعظمؒ نے بھی اسی پس منظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اس لئے ہماری حکومتی و عسکری قیادتوں کی اوّلین ذمہ داری ہی ملک کی شہ رگ کو دشمن کے خونیں پنجے سے چھڑانے کی ہے جبکہ بھارت اس شہ رگ کو اپنے وجود کا حصہ بنانے کے درپے ہے اور اسی بناءپر وہ اوّل تو کشمیر ایشو پر ہمارے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھتا ہی نہیں، اگر کبھی پاکستان، بھارت مذاکرات کی چاہے جس بھی سطح پر نوبت آتی ہے تو کشمیر کا تذکرہ ہوتے ہی وہ بدک جاتا ہے اور مذاکرات کی میز الٹا کر پاکستان پر دراندازی کے الزامات کی بوچھاڑ کردیتا ہے۔ اس سلسلہ میں اسکا اب تک کا طرزعمل پوری دنیا کے سامنے ہے جبکہ وہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو دبانے کیلئے لاٹھی، گولی،آنسو گیس اور تشدد کے دیگر حربے استعمال کرکے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کو شہید کرچکا ہے اور ہم پر بھی تین جنگیں مسلط کرچکا ہے اس لئے ہماری سلامتی کیخلاف ایسے عزائم رکھنے والے بدترین دشمن اس پڑوسی ملک سے کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر یو این قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پیشرفت کریگا۔ اس سلسلہ میں دفتر خارجہ کے ترجمان کو گزشتہ ماہ اسلام آباد میں وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونیوالے مذاکرات کے فوراً بعد بھارت کے بدلے ہوئے لہجے پر ہی غور کرلینا چاہئے کہ پہلے بھارتی وزیر داخلہ چدمبرم نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا اور آزاد کشمیر پر پاکستان کے قبضے کا پروپیگنڈہ کیا۔ پھر یہی بات بھارتی سیکرٹری دفاع نے دہرائی جبکہ خود بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے بھی بھارت پہنچ کر اپنے تیور بدل لئے۔ اسی طرح صدر زرداری نے یو این جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل میں اقوام متحدہ کی ناکامی کا تذکرہ کیا تو پاکستان کے دورے کے منتظر بھارتی وزیراعظم منموہن نے خود صدر زرداری کے اس موقف کا نوٹس لیا اور کشمیر کے تذکرہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ اس ذہنیت کے حامل بھارت سے ہمارے دفتر خارجہ کے ترجمان مسئلہ کشمیر کے حل کے معاملہ میں سمجھداری کی توقع رکھتے ہیں تو پھر یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھارت سے ایسی توقعات رکھے بیٹھے ہیں جن سے نا صرف وہ خود بلکہ قوم بھی مایوس ہی رہے گی۔ اسی طرح وہ چین، امریکہ اور روس کی ثالثی میں مسئلہ کشمیر کے حل کی توقع باندھ رہے ہیں۔ ثالثی کیلئے امریکہ اور روس نے تو کبھی کشمیر پر آواز نہیں اٹھائی ،البتہ چین اس خطہ میں واحد ملک ہے جو کشمیر ایشو پر کھل کر ہمارے موقف کی حمائت کرتا ہے ۔چین کے بھارت کے ساتھ تاریخی تنازعات اور یہ احساس کہ امریکہ بھارت کو چین کے مدمقابل ایک اقتصادی طاقت دیکھناچاہتا ہے ،چین کا موقف پاکستان کے حق میں رہے گا۔ اس تناظر میں علاقائی امن و سلامتی اور امریکہ کے ہاتھوں بگڑا ہوا طاقت کا توازن قائم کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا پاکستان اور چین کا مشترکہ مفاد ہے اور اسی حوالے سے چین کشمیر ایشو پر بھارت کے مقابلہ میں کھل کر ہمارے ساتھ کھڑا ہے چنانچہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کسی ملک کی ثالثی ہمیں قبول ہوسکتی ہے تو وہ صرف چین ہے ۔جبکہ امریکہ ثالثی کا کردار ادا کریگا تو اس سے یہی توقع ہے کہ اپنا فائدہ دیکھتے ہوئے وہ بحرانوں میں گھرے پاکستان کی بجائے بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے کو اہمیت دے گا۔ جہاں تک روس کا معاملہ ہے تو اسکے ساتھ سازگار فضا ہموار ہونے کے باوجود سرد جنگ کے تناظر میں ہمارے ساتھ پیدا ہونیوالی تلخیاں اسکے ذہن سے ماﺅف نہیں ہوسکتیں چنانچہ علاقائی تعاون کی حکمت عملی میں ہمیں روس کی حمایت کیلئے ابھی بہت لمبا راستہ طے کرنا ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی روس نے بھارت کو 42 جدید جنگی طیارے اور 71 ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے چنانچہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے روس کا ثالثی کا کردار بھی ہمارے حق میں اس وقت مشکل دکھائی دیتا ہے۔
اس صورتحال میں اگر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ اور روس کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں تو ثالثی کے بجائے وہ اقوام متحدہ کے بااثر رکن ہونے کے ناطے کشمیر ایشو پر یو این سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کیلئے اقوام متحدہ کا بھارت پر دباﺅ ڈلوائیں، بصورت دیگر یہ مسئلہ بھارت کی جنگی تیاریاں دیکھ کرمذاکرات کے بجائے طاقت کے زور پر ہی حل ہوگا جس کیلئے ہمیں بہرصورت خود کو تیار رکھنا ہے۔ بھارت ہمیں منتشر کرنے کیلئے طاقت کا ہر حربہ استعمال کررہا ہے اور ہم بھی اپنی بقاءوسلامتی کیلئے اپنے دفاعی حصار کو مضبوط تر بنانے کیلئے قومی خزانے کی بھاری رقم اس پر ہی خرچ کر رہے ہیں۔اس تناظر میں دفتر خارجہ کے نو آموز ترجمان کو یہی مشورہ دینا چاہئے کہ بھارت کے اپنے ہاتھوں منظور کی گئی یو این قرارداد پر عمل کو امریکہ ،روس اور چین یقینی بنائیں۔