لاہور (خبر نگار) منظور احمد وٹو کو پنجاب (سنٹرل) کا صدر بنانے کی خبروں سے پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی۔ پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما میاں منظور وٹو کو موجودہ حالات میں ”اچھی چوائس“ قرار دے رہے ہیں وہیں ایک گروپ ان کے 1993ءمیں پیپلز پارٹی کو اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود صرف 18 ارکان کی مدد سے ”بلیک میل“ کر کے وزیراعلیٰ بن کر پیپلز پارٹی کے سینے پر ”مونگ دلنے“ کی مثال کو سامنے رکھنے کی بات کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے باخبر رہنماﺅں نے تسلیم کیا کہ منظور وٹو کو پی پی پی پنجاب کا صدر بنانے کی تجویز زیرغور ہے۔ میاں منظور وٹو کے ”حق“ میں دلائل دینے والے یہ کہتے ہیں کہ پنجاب مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور ق لیگ کے صدر چودھری پرویز الٰہی کا مقابلہ کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کے پاس اس وقت کوئی ”جیالا“ موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے یہ حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ پرویز الٰہی اور میاں شہباز شریف کے مقابلے کیلئے میاں منظور وٹو کو لانا مجبوری ہے۔ بڑے قد کاٹھ کے سیاستدانوں کے سامنے لانے کیلئے پیپلز پارٹی کے اندر مقابلے کا ”لیڈر“ نہیں مل رہا۔ منظور وٹو کے حق میں دلائل دینے والے ان لیڈروں کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب میں معاملات کا نگران بنائے جانے سے پارٹی لیڈر اور کارکن یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ ق لیگ کے سامنے سرنڈر کر دیا گیا ہے۔ ان رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ منظور وٹو اب ”پارٹی“ کا حصہ ہیں۔ ان کے صاحبزادے خرم وٹو ”پی وائی او“ پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ دوسری طرف میاں منظور وٹو کو صدر بنائے جانے کی خبروں پر ”ناراض گروپ“ کے لیڈروں کا کہنا تھا کہ میاں منظور وٹو ”سیاسی شاطر“ کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ بیحد ٹھنڈے دماغ کے سیاستدان ہیں اور اپنے معاملات پر ”فوکس“ رہتے ہیں۔ ان مخالفین نے تسلیم کیا کہ منظور وٹو ایسی شخصیت ہیں جن سے ان کے مخالفین خوفزدہ رہتے ہیں۔ ان حلقوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ منظور وٹو ابھی ”مصدقہ جیالے“ نہیں ہیں۔