غلطیوں پر تنقید کریں تضحیک نہیں اس سے ادارے تنازعات میں الجھ کر مزید کمزور ہوتے ہیں‘ دہشت گردی کے مسئلے کا حل آئین کے اندر رہتے ہوئے نکالا جائے: جنرل کیانی

کاکول (اے پی پی+ نیٹ نیوز) آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ پاک فوج دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے فوجی قیادت کی جانب سے شروع کئے گئے مذاکراتی عمل کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مذاکرات ترجیح ہونی چاہئے۔ قوت کا استعمال آخری حربہ ہے لیکن اگر اس کی ضرورت پڑتی ہے تو پاک فوج اس کے موثر استعمال کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ ضروری ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل آئین کے اندر رہتے ہوئے ڈھونڈا جائے۔ پاک فوج نے دہشت گردی کیخلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مسائل کے حل کیلئے قوم کے ہرفرد کو بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ قومی قیادت کو اس کیلئے ایک راہ دکھانی ہوگی، ملک مشکل اور کٹھن دور سے گزر رہا ہے، جو قومیں مشکل حالات کو چیلنج سمجھ کر قبول کرتی ہیں وہ مزید مضبوط ہوکر ابھرتی ہیں اورجو قومیں اپنے اوپر مایوسی طاری کرلیں تباہی انکا مقدر بن جاتی ہے، پاکستان ملٹری اکیڈمی دنیا کی عسکری اداروں میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ وہ یہاں پی ایم اے کاکول میں 128 ویں لانگ کورس، 25 ویں ٹیکنیکل گریجویٹ کورس، 47 ویں انٹگریٹڈ کورس،11ویں لیڈر کیڈٹ کورس اوردوسرے مجاہدکورس کے کمیشن حاصل کرنے والے کیڈٹس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے کمیشن حاصل کرنیوالے کیڈٹس، فلسطین، بحرین اور نیپال کے کیڈٹس اوران کے اساتذہ اور والدین کوخصوصی مبارک باد پیش کی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ پاکستان ایک مشکل اور کٹھن دور سے گزر رہا ہے، قوموں کی تاریخ میں مشکل وقت آتے رہتے ہیں جو قومیں اسے چیلنج سمجھ کر قبول کریں وہ مزید مضبوط ہوکر ابھرتی ہیں اور جو قومیں اپنے اوپر مایوسی طاری کرلیں تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ غلطیاں ہم نے ضرور کیں اور آج ہم اس مقام پر نہیں جہاں ہوسکتے تھے لیکن ہم نے کچھ اچھا بھی ضرور کیا جس کی بدولت پاکستان آج بھی آزاد اور توانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ 1947ءمیں پاکستان کی شرح خواندگی 12 فیصد تھی ۔ پورے ملک میں ایک یونیورسٹی اور چند گنے چنے کالج تھے۔ صنعتی میدان میں محض 34 فیکٹریاں ہمارے حصے میں آئیں‘ ہماری شرح آمدنی 100 ڈالر سے بھی کم تھی‘ ریاستی ادارے نہ ہونے کے برابر اور پاک فوج بھی صرف چند ہزار افراد پر مشتمل تھی جس کے پاس گنتی کے چند ٹینک تھے۔ کچھ ایسی ہی حالت ائرفورس اور نیوی کی تھی بحثیت مجموعی ہمارا آغاز معاشی‘ صنعتی‘ تعلیمی اور دفاعی نظام کے حوالے سے کمزوری کی انتہائی سطح سے ہوا انہی وجوہات کی بناءپر مملکت خداداد کا قائم رہنا بہت سے حاسدوں کو مشکل نظر آتا تھا لیکن اس قوم کے جذبے کو سلام جس نے ہرآزمائش کو اپنے سینے پرسہا۔ آج 66 سال گزرنے کے بعد پاکستان آبادی کے لحاظ سے چھٹا ‘ لائیو سٹاک اور زراعت میں دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ آج پاکستان کے طول وعرض میں ہرجگہ فیکٹریاں اور کارخانے نظر آتے ہیں۔ آج ہماری شرح خواندگی 60 فیصد ہے۔ ملک میں 186 یونیورسٹیاں اور بے شمار کالجز ہیں۔ آج ہماری شرح آمدنی 1300 ڈالر سے اوپر ہے۔ آج ہم دنیا کی ساتویں بڑی فوجی قوت ہیں اور الحمدﷲ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بھی ۔ ہم اس سے بھی بہتر ہو سکتے تھے لیکن ہم نے غلطیاں کیں سب سے پہلے تو ہم قائداعظمؒ کے زیریں اصول بھول گئے‘ اتحاد ‘ ایمان اور تنظیم سے انحراف کیا۔ عوام کی فلاح کو پست پشت ڈال دیا نتیجتاً بہت سے حسین خواب جن سے پاکستان کا خیال بنا گیا تھا شرمندہ تعبیر نہ ہو پائے۔ انہوںنے کہا کہ اگر ہم اپنی تاریخ پرنظر دوڑائیں تو دیگر وجوہات کے علاوہ ایک اہم وجہ ریاستی اداروں میں باہمی توازن کی کمی تھی جس کی وجہ سے ریاستی نظام کا ارتقاءغیرموزوں رہا‘ ساتھ ہی ساتھ معاشی مواقعوں کی ناہمواری سے امیر‘ امیر سے امیر تر اور غریب‘ غریب سے غریب تر ہوتا گیا۔ کمزور نظام حکومت اور عدم برداشت نے ان خرابیوں کو مزید ہوا دی ہمیں کھلے ذہن سے یہ قبول کرلینا چاہئے کہ ان مسائل کا حل نہ تو ایک شخص اور نہ ہی معاشرے کے کسی ایک خاص گروہ کے پاس ہے ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ مسائل چند ماہ یا چند سال میں حل نہیں ہوں گے۔ اس کیلئے قوم کے ہرفرد کو ایک بھرپور کردارادا کرنا ہوگا۔ قومی قیادت کو اس کیلئے ایک راہ دکھانی ہوگی۔ اس راستے کے تعین کے بعد ہمیں اس پر ڈٹ جانا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب مختلف ریاستی اداروں میں تعاون اور باہمی اشتراک ہو ۔ اس توازن اور اشتراک کی کمی سے وطن عزیز بہت نقصان اٹھا چکا ہے اورہم مزید نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ خاص طور پر سول اور عسکری روابط میں باہمی اعتماد اور ایک دوسرے پر قومی مقاصد کیلئے بھرپور انحصار لازمی ہے ۔ ضروری یہ ہے کہ مستقبل میں بھی عسکری قیادت ملک میں جمہوری نظام کو مضبوطی کیلئے اپنا بھرپور کردارادا کرتی رہے لیکن یہ تبھی ممکن ہوگا جب سب اداروں کا آپس میں باہمی اعتماد بھی بڑھے۔ اس عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب اس تسلسل کو برقراررکھنا چاہئے۔ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے کہاکہ ریاستی اداروں کے مابین اعتماد اور روابط کسی بھی ملک میں مثالی اور حتمی نہیں ہوتے اس ارتقائی سفر میں ہمیشہ غلطیاں ہوتی ہیں‘ یہ غلطیاں یقیناً پاکستان میں بھی سرزد ہوئیں ان غلطیوں کا احاطہ کرنے میں سب سے اہم کردار ہمیشہ معاشرے کا ہوتا ہے جو ایک تعمیری تنقید کے ذریعے ادا کیاجاتا ہے لیکن جہاں تنقید میں اداروں کی تضحیک کا پہلو شامل ہوجائے وہاں ادارے آگے بڑھنے کی بجائے یا تو باہمی تنازعات میں الجھ کر مزید کمزورہونا شروع ہوجاتے ہیں یا کارکردگی کی ایک سطح پر منجمد ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس لئے تنقید بجا لیکن تضحیک سے ہمیشہ گریز کرنا چاہئے۔ بالآخر پاکستان تب ہی ترقی کرے گا جب ہمارے ادارے مضبوط ہوں گے۔ آج ہم بخوشی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے نے اپنے اس کردار کو نہ صرف سمجھا بلکہ اسے نبھانے کیلئے پچھلے چند سال میں اہم پیش رفت بھی کی۔ انہوں نے کہاکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا بہتر مستقبل کی تعمیر کیلئے ضروری ہے لیکن اپنی کامیابیوں کو مکمل نظرانداز کرنا اور یہ باور کر لینا کہ شاید ہم میں کسی اچھائی کی صلاحیت ہی نہیں‘ اپنے ذہنوں کو مایوسی کے اندھیروں کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ تمام تر مشکلات اور غلطیوں کے باوجود ہم نے اس ملک کو مثالی ریاست بنانے کی کوشش نہیں چھوڑی اسی کوشش کا ایک عکس آپ کو آج اس جمہوری نظام کی صورت میں نظر آتا ہے جو قومی اتفاق رائے سے بننے والے آئین کے دائرے کا مرکزی نقطہ ہے۔ 2008ءکے انتخابات کے نتائج تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی میعاد پوری کی اورنئی منتخب حکومت کو پرامن طریقے سے انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار کی منتقلی ہوئی۔ 2013ءکے انتخابات میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 1970ءکے بعد سب سے زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ اب مرکز اور صوبوں میںعوام کی رائے سے بننے والی نئی حکومتیں کام کررہی ہیں، ہم اس وقت جمہوری اقوام کی صف میں کھڑے ہیں۔ فوج نے بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھائیں۔ انتخابات کے دوران امن وامان قائم کرنا مشکل ذمہ داری تھی لیکن فوج نے باقی اداروں سے مل کر انتخابی ماحول ساز گار بنایا۔ ان دو انتخابات کے انعقاد سے بنیاد رکھی جاچکی ہے اب عمارت کی صحیح تعمیر موجودہ اورآنے والی معماروں کاکام ہے۔ آج ہم اس تکلیف دہ تاریخ کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں جس نے ایک طویل عرصے تک قوم کو مختلف تجربات سے گزارا۔ آج کے دن ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں عوام کی قسمت کے فیصلے ان کی اپنی قیادت کررہی ہے، یہ کامیابی ان لوگوں کیلئے ایک مناسب اور مضبوط جواب ہے جنہوں نے اس عظیم ملک کے مستقبل کے بارے میں افواہ سازی کو کاروبار میں تبدیل کررکھا ہے۔ پاکستان کا نظریہ اپنی اساس میں انتہائی جمہوری ہے جو حلقے ہماری نظریاتی بنیاد کو متنازعہ بنانے میں مصروف ہیں ان کو یہ سمجھ لیناچاہئے کہ اس ملک کا وجود ان جمہوری تصورات کے ساتھ جڑا ہوا ہے جن کی وجہ سے پاکستان ایک تاریخ ساز حقیقت کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ ہمارا مذہب جمہوریت کے بہترین افکار کا مظہر ہے۔ بانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ہماری سمت کا تعین کردیا تھا۔ ہم سب ایک اسلامی فلاحی ریاست میں بلاتفریق عقیدہ، رنگ و نسل یا ذات، برابر کے شہری ہیں۔ ایسے منفی رویے جو شہریوں کے جمہوری اور آئینی حقوق غصب و پامال کرتے ہوں ہماری قومی زندگی کا حصہ کبھی نہیں بن سکتے۔ عوام کی فلاح، برداشت، تحمل اور آئین پاکستان کی اطاعت سے ہی ہم اس جمہوری نظام کو حتمی کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ دہشت گردی ہمارے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ نہ صرف نظریہ پاکستان بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ اس سے نمٹنے کیلئے قومی قیادت نے مذاکرات کو موقع دینے کا راستہ چنا ہے۔ پاک فوج اس عمل کی حمایت کرتی ہے۔ یہ عمل کن حدود میں رہ کر ہونا چاہئے اس کا تعین بھی قوم اور سیاسی قیادت نے ہی کرنا ہے۔ جیسے جیسے یہ عمل بڑھ رہا ہے، یہ حدود خود بخود واضح ہوتی جا رہی ہیں لیکن یہ نہایت اہم ہے کہ حل کا یہ عمل آخر کار قوم میں یکسوئی لائے نہ کہ تقسیم۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ مسئلے کا حل آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ڈھونڈا جائے۔ اگر اس عمل کے ذریعے حل کی صورت نکلتی ہے تو پاک فوج کو سب سے زیادہ خوشی ہوگی۔ قوت کا استعمال بہرحال آخری حربہ ہے لیکن اگر اس کی ضرورت پڑتی ہے تو پاک فوج اس کے موثر استعمال کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ فوج کے ذہن میں دونوں صورتوں میں اپنے کردار کوسمجھنے اور اس کو بروئے کار لانے کے متعلق کوئی ابہام یا غلط فہمی نہیں ہے۔ پاک فوج نے مشکل حالات میں دہشت گردی کے خلاف اپنا رول ادا کیا، جو ہمارا فرض ہے لیکن پھر بھی ایک رائے سامنے آئی ہے کہ شاید فوجی آپریشن کی ناکامی نے ہمیں مذاکرات پر مجبور کیا۔ یہ سچائی سے بہت دور ہے۔ ہمیں وہ دن یاد رکھنے چاہئیں جب اسلحہ بردار جتھے اسلام آباد سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ جب بازاروں میں عورتیں اور مرد ذبح کئے جاتے تھے۔ مینگورہ کا سبز چوک خونی چوک کہلاتا تھا۔ سڑکیں، کاروبار، گھر، املاک، معاشرت، معیشت اور انصاف سب کچھ جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی جو خود سے ان ملک کا وارث اور مالک سمجھ بیٹھے تھے۔ ان حالات کو قابو کرنے کیلئے فوج کی کاوش کی جدید جنگی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سوات کی مثال اس کو سمجھنے کیلئے کافی ہے، جس میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے جنہیں ہم سب نے مل کر سنبھالا ایک برق رفتار اور موثر ملٹری آپریشن کے ذریعے سوات کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا اور چار ماہ ختم ہونے سے پہلے 20 لاکھ سواتی واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ آج سوات میں مکمل امن ہے جس کے گواہ خود سوات کے لوگ ہیں۔ سوات کے علاوہ جنوبی وزیرستان، اورکزئی، مہمند، باجوڑ، دیر اور حال ہی میں تیرہ کی وادی کو دہشت گردوں کے چنگل سے چھڑانے کا عمل کسی تعریف یا دادرسی کا محتاج نہیں۔ ہمارے ملک کے 37 ہزار مربع کلومیٹر پر ریاست کے اختیار کو بحال کرنا وہ کارنامہ ہے جس پر ہمیں فخر ہے۔ ان کامیابیوں میں ہزاروں شہیدوں اور غازیوں کا لہو شامل ہے، جس کے بارے میں وسوسے اور ابہام پھیلانا ان شہیدوں کی بے حرمتی ہے۔ ان کامیابیوں کے بغیر آج کیا حالات ہوتے، سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر ان فوجی کامیابیوں کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا تو ان وجوہات کا احاطہ کرنا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ان غلطیوں کا اعادہ نہ ہو۔ جان کی قربانی کی کوئی قیمت نہیں اور نہ ہی کوئی اس کی قیمت مانگتا ہے مگر باعزت معاشرے، وطن کیلئے خون کا نذرانہ دینے والوں کو جو عزت دیتے ہیں ہم ان سے کئی قدم آگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشکل ترین حالات میں سے گزرنے کے باوجود ہمارے جوان اور افسر ذہنی دباﺅ سے آزاد ہیں، صرف اس لئے کہ ان کے ذہن میں اپنے مشن کے بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جنگ کے میدان سے واپس آنے والے کافی فوجیوں کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں اور اسی اعصابی دباﺅ کی وجہ سے خودکشیوں کا رجحان بھی نظر آتا ہے۔ پاکستان فوج میں الحمدللہ آپ کو ایسی ایک مثال بھی نہیں ملے گی۔ پاک فوج نے تمام کامیابیاں اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے حاصل کی ہیں۔ اعداد و شمار کا ہیرپھیر کرنے والے آپ کو کچھ بھی بتائیں، حقیقت میں دفاعی اخراجات قومی بجٹ کا صرف 18فیصد ہیں، 80فیصد نہیں۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ملک کی حقیقی سلامتی یا قومی سلامتی صرف خوشحال اور پرامید عوام میں پنہاں ہے۔ بیرونی خطرے کے خلاف بہترین فوجی دفاع کے باوجود پاکستان صحیح معنوں میں تبھی محفوظ ہوگا جب سب پاکستانی اپنی افواج کے ساتھ کھڑے ہوںگے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہماری معیشت مضبوط ہو۔ اندرونی طور پر کمزور اقوام بیرونی خطرات کے سامنے لاچار ہوجاتی ہیں۔ ہمار تصور دفاع صرف مضبوط افواج ہی نہیں بلکہ عوام کی خوشحالی اوربہترین فوجی صلاحیت کا درست توازن ہے۔دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا لامعنی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج بھی پاک فوج ملکی سلامتی اور استحکام کی علامت ہے۔ ضروری ہے کہ ہم امید کے چراغ روشن رکھیں۔ پاکستان ہم سب کا نصیب ہے جسے بہتر سے بہترین بنانے میں ہم انشا اللہ کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔

ای پیپر دی نیشن