سیالکوٹ+ ڈسکہ+ نارووال (نامہ نگار+ نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ 12اکتوبر 1999ءکو جمہوریت پر شب خون مارکر جمہوری نظام کو لپیٹ دیا گیا جس کے اثرات آج بھی محسوس ہورہے ہیں، فوجی آمر کے اقدام کے نتیجے میں ملک کی ترقی سست روی سے دوچار ہوئی، ایک فوجی آمر کی طرف سے جمہوری حکومت کو گرانا مستقبل میں ملک کی ترقی کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں تھا، اسکی وجہ سے نوزائیدہ جمہوری اداروں کی ترقی جمود اور سست روی سے دوچار ہوگئی اےسے حادثات کو یاد رکھنے، ان پر غور کرنے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے اور مستقبل میں ایسی فاش غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے اور اےسے حالات سے بچنے کی ضرورت ہے۔ وکلاءاگر عدلیہ بحالی کی تحریک نہ چلاتے تو قوم میں نئی روح بیدار نہ ہوتی، قانون کی پاسداری کا سہرا وکلاءکو جاتا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت کی بحالی کیلئے ملک بھر کے وکلاءنے قربانیاں دی ہیں۔ ان خیالات کا اظہا رانہوں نے سیالکوٹ کے مقامی ہوٹل میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ تقریب سے چیف جسٹس لاہو رہائیکورٹ عمر عطا بندیال، جسٹس جواد ایس خواجہ، صدر بار سیالکوٹ ملک مشتاق احمد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ وکلاءنے جمہوریت پر دوبارہ شب خون مارنے کی کوشش کو قربانیاں دیکر ناکام بنایا اور اب وہ وقت نہیں رہا کہ کوئی آئین کو پامال کرے۔ ملک کی ترقی کیلئے قانون کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا، عوام کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ نے سوﺅموٹو ایکشن لئے۔وکلاءمیں آج بھی وہی جذبہ موجود ہے جو انہوں نے مارچ 2007ءمیں عدلیہ کی بحالی میں دکھایا تھا۔ انہوں نے کہاکہ انہیں یقین ہے کہ وکلاءاور جج صاحبان قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اورا ٓئین وقانون کے مطابق اپنے فرائض دیتے رہیں گے۔ تمام اداروں بشمول مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ قوم کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں ایسی سمت جو قومی ہم آہنگی اور اتفاق واتحاد قائم رکھنے اور مختلف مذاہب ، فرقوں اور مکتب ہائے فکر کے افراد میں مطابقت پیدا کرنے کیلئے آئین نے طے کی ہے تاکہ جمہوری نظام کو مضبوط بنایا جاسکے اور پاکستان کومعاشی ، معاشرتی اور سیاسی ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے ۔ انصاف تک رسائی کی رفتار میں موجودہ پیشرفت سے عدالتوں میں لوگوں کی توقعات میں اور اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں ایسی فضا قائم کرنا ہے کہ جمہوری نظام مضبوط ہو، لوگوں کے مسائل حل ہوں اور ان کی شکایات کا ازالہ ہوتاکہ بارہ اکتوبر 1999ءجیسا حادثہ دوبارہ رونما نہ ہوسکے ۔انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ میں 1965ءکی جنگ میں وطن عزیز کی سرحدوں کو بیرونی جارحیت سے بچانے کیلئے اپنی زندگیاں اور املاک کو قربان کیا گیا، اسی جذبہ کے تحت اب دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں تاکہ ہمارے قائدین قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے انصاف اور پرامن معاشرے کا جو خواب دیکھا تھا اسے عملی جامہ پہنایا جا سکے۔ ضلعی عدلیہ پاکستان کے عدالتی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثےت رکھتی ہے۔ ضلعی عدلیہ اگر کارکردگی سے عوام کو مطمئن کرے گی تو وہ عوام کا اعتماد اور عزت حاصل کر پائے گی، تقریباً نوے فیصد سائلین ابتدائی طو رپر ضلعی عدلیہ سے رجوع کرتے ہیں، عدالتی نظام پر عوام کے اعتماد کا پہلا تاثر اسی درجہ پر ہونے والے تجربات سے قائم ہوتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی ذمہ داری آئین کی تشریح کرنا ہے اور بار کے ارکان کو چاہئے کہ وہ اس ضمن میں اپنی ہرممکن معاونت مہیا کریں اور مقدمات کے فیصلے کرنا ایک انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔ بار کے ارکان کی مدبرانہ معاونت کے بغیر ججوں کیلئے مقدمات کا موثر طور پر تصفیہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے اس لئے وکلاءجھوٹے مقدمات لینے اور بلاضرورت تاریخیں لینے سے اجتناب برتیں گے تو نہ صرف موکل کی مدد ہوگی بلکہ عدالتوں کو جائز فیصلے پر پہنچنے کیلئے معاونت بھی ملے گی اور معاشرے میں اس سے عزت ورتبہ بھی وکلاءکو حاصل ہوگا۔ انصاف کی فراہمی میں تاخیر نہ صرف سائلین میں بے چینی پیدا کرتی ہے بلکہ سماجی ومعاشرتی سرگرمیوں کے تانے بانے کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ عدلیہ کو مشکل سے یہ مقام ملا ہے برقرار رکھنے کے لئے فوری انصاف کی فراہمی اور احتساب کو یقینی بنانا ہو گا۔ سیالکوٹ کا علاقہ اپنی صنعتی سرگرمیوں اور قدیم تہذیب اور تاریخی مقامات کی وجہ سے مشہور ہے اسکی بڑی تاریخی اہمیت ہے اور اسے یہ فخر یہ مقام بھی حاصل ہے کہ فلسفی وقومی شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور فیض احمدفیض جیسی عظیم شخصیات کا تعلق بھی یہاں سے ہے ۔یہاں کے وکلاءنے بھی عدلیہ بحالی تحریک میں بھرپور اور آگے پیش پیش ہوکر جدوجہد کی ہے۔ ایسی فضا قائم کرنا ہو گی جس میں لوگوں کے مسائل حل ہوں، عدلیہ کے کندھوں پر بھاری ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ لاہور مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آج آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی وجہ سے منفی قوتیں خاموش ہو چکی ہیں۔ ادارے قانون کے تابع ہوتے ہیں، اگر ادارے آئین اور قانون پر عمل کریں تو اس سے اداروں کی وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ پولیس کی نااہلی کی وجہ عدالتوں میں مقدمات بڑھ رہے، عوام انصاف کیلئے عدالتوں میں رٹیں دائر کرتے ہیں۔ وکلاءکے تعاون ضلع بھر میں 2008ءتک کے زیر التوا مقدمات نمٹا دیئے گئے ہیں۔ اب 2011ءتک کے مقدمات نمٹائے جا رہے ہیں۔ گوجرانوالہ میں دوسری بار عدالتی احاطہ میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے پولیس کو عدالتوں میں سکیورٹی کو مو¿ثر بنانے کیلئے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں، وکلاءکو چاہئے کہ وہ عدالتوں کی سکیورٹی کیلئے پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔ ڈسکہ میں جوڈیشل کمپلیکس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ اب وہ حالات نہیں کہ 12 اکتوبر 1999ء کی طرح ملک پر دوبارہ شب خون مارا جاسکے‘ مارشل لاءدور گزر گیا ہے اب آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے۔ آئین کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے لئے وکلاءاور سول سوسائٹی سمیت تمام طبقات میں عدلیہ بحالی تحریک جیسا جذبہ موجود ہے‘ ججز کے مفادات اپنے لئے نہیں ادارے کیلئے ہوتے ہیں۔ عدلیہ کی عزت پر جب بھی حرف آیا بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا‘ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے تقدس کیلئے عوام نے بے شمار قربانیاں دیں۔ چند سال قبل 12اکتوبر 1999ءکو پارلیمنٹ اور جمہوریت پر شب خون مارا گیاتھا۔ کرپشن کا خاتمہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت کرنا ہوگا۔ تقریب میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جواد ایس خواجہ‘ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال گوجرانوالہ بار اور دیگر وکلاءکی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے عدلیہ بحالی تحریک میں وکلاءاور سول سوسائٹی کے کردار کو سراہتے ہوئے کہاکہ آج بھی وکلاءمیں 9 مارچ 2007 ءکے بعد عدلیہ بحالی تحریک کے وقت جیسا جذبہ اور لگن موجود ہے جس پر میں مطمئن اور خوش ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں بھی وکلاءاور اعلیٰ و ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان اسی طرح قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے لئے کام کرتے رہیں گے اور آئین کی حفاظت بھی اسی جذبے سے کریں گے۔ججز کی معزولی کے وقت جسٹس جواد ایس خواجہ اور دیگر ججز کی خدمات اور قربانی ناقابل فراموش ہے۔ قوموں میں بہت کم ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے مفادات دنیاوی یا وقتی نہیں بلکہ ادارے کے لئے ہیں۔ ملکی تاریخ میں 12 اکتوبر کے دن کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ 1999ءمیں اسی روز پارلیمنٹ اور جمہوریت پر شب خون مارا گیا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس کے بعد 9 مارچ کا واقعہ ہو یا 3 نومبر کا جب بھی کسی نے دوبارہ ایسی کوشش کی ملک کے وکلائ‘ سول سوسائٹی‘ مزدوروں‘ طلبا اور قوم کے تمام طبقات نے قربانیاں دے کر شب خون مارنے کی کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔ اب وہ وقت نہیں کہ آئین پر کوئی شب خون مار سکے نہ اس کی کامیابی کی کوئی وجہ ہے، قوم کے تمام طبقات نے آئین کی پاسداری کرکے شہریوں کو یقین دلایا ہے کہ ان کے حقوق کا تعین آئین کے مطابق ہوگا اور آئین نے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا ہے، اس وقت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ایسے بہت سے مقدمات زیرسماعت ہیں جن کا تعلق بنیادی انسانی حقوق ہے۔ڈسکہ نامہ نگار سے نمائندہ خصوصی کے مطابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عمر عطا بندیال نے جوڈیشل کمپلیکس ڈسکہ کا دورہ کیا اور نئے تعمیر ہونے والے جوڈیشل کمپلیکس کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات تھے اور چیف جسٹس کی آمد سے پہلے موبائل سروس جام کر دی گئی تھی۔ ڈسکہ بار سے خطاب کے بعد چیف جسٹس سیالکوٹ گئے۔ نارووال اور ظفر وال سے نامہ نگاروں کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ 9مارچ 2007ءکے بعد چلائی جانے کی تحرےک کا مقصد صرف ملک مےں آئےن اور قانون کی بالادستی تھی تاکہ مضبوط نظام عدل رائج ہوسکے، اب ملک کے بچے بچے کو اپنے حقوق کا پتہ ہے جن کی پاسداری کےلئے عدالتےں موجود ہےں، مضبوط نظام عدل صرف اس وقت ہی قائم ہو سکتا ہے جب بار مضبوط ہو اگر بار مضبوط نہ ہوتی تو عدلےہ بھی مضبوط نہ ہوتی،گذشتہ ادوار مےں طالع آزما آئےن کو جھنجھوڑ کر پھےنکتے رہے مگر آزاد عدلےہ کے فےصلوں نے ےہ بات ثابت کر دی ےہاں قانون اور آئےن کے علاوہ کسی بھی قسم کا نظام نہےں چلے گا جس سے پہلے مرتبہ مقررہ وقت پر الےکشن ہوئے اور وفاقی و صوبائی حکومتےں قائم ہوئےں، ےہ بات انہوں نے ظفروال مےں تحصےل جوڈےشل کمپلےکس کی نئی عمارت کے افتتاح کے بعد تحصےل بار ظفروال کے وکلاءسے خطاب کرتے ہوئے کہی، چےف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جناب جسٹس عمر عطاءبندےال، کورٹ جسٹس اعجاز چودھری، جسٹس جواد اےس خواجہ بھی موجود تھے۔ چےف جسٹس نے کہا جس ملک مےں آئےن اور قانون کے ساتھ ادارے مضبوط ہوں وہ ملک معاشرتی اور اقتصادی طور پر خوب ترقی کر تا ہے، لوگوں نے آئےن پر چلنے کا فےصلہ کر لےا ہے اور آئےن پر چلنے والی قوموں کو نقصان نہےں ہوتا۔ لوگوں کے حقوق کی پاسداری کے لئے عدالتیں موجود ہیں۔ چےف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عمر عطا ءبندےال نے کہا ہے کہ وکلا ءکو انصاف مہےا کرنے کےلئے بنےادی اصولوں کو اپنانا ہو گا، وکلاءجج صاحبان سے اچھا روےہ اور اخلاق چاہتے ہےں تو خود بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرےں، جسٹس سپرےم کورٹ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ چےف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اس وقت کے مضبوط ڈکٹےٹرکے سامنے انکار کر دےا اور قےد و بند کی صعوبتےں برداشت کیں، اس وقت بار، عوام اور سول سوسائٹی نے عدلےہ کا خوب ساتھ دےا، چےف جسٹس نے حکومت وقت کی آنکھوں مےں آنکھےں ڈال کر درست فےصلے دئےے اور ملک کی لوٹی ہوئی اربوں روپے کی دولت قومی خزانے مےں جمع کرائی۔ مجھے اس بار سے تعلق پر فخر ہے، مےرے بار ممبران عدلےہ کے ساتھ اچھے روئےے سے پےش آئےں گے، جسٹس جواد اےس خواجہ نے کہا کہ وکلاءمحنت لگن اور جانفشانی سے کام کرےں۔
عوام اب دستور کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے‘ 12 اکتوبر99 ءکو مارے گئے شبخون سے ترقی سست روی کا شکار ہوئی : چیف جسٹس
Oct 13, 2013