ملک کے قبائلی علاقوں مےں سرگرم 30 سے زےادہ دہشت گردگروپوں پر کنٹرول رکھنے والے کمانڈر نے بی بی سی کو دےے جانیوالے تازہ انٹروےو مےں جو تفصےلات بےان کی ہےں ان سے مذاکرات کے حماےتی اور مخالف دونوں پر سنجےدہ مذاکرات کی حقےقت واضح ہو جانی چاہےے۔ ےاد رہے اس انٹروےوسے پہلے عوامی حلقے اگر کسی ممکنہ برےک تھرو کے انتظار مےں تھے تو وہ ملتا نظر نہےں آرہا۔ البتہ اس انٹروےو نے اےک کام ضرور کےا ہے وہ ےہ کہ عوام مےں پائے جانے والے خدشات اور مذاکرات کے سلسلے مےں موجود ابہام کھل کر سامنے آگئے ہیں۔
حکےم محسود نے پاکستان کو اس کی دو بڑی خرابےوں سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اےک تو ےہ کہ پاکستان امرےکہ کا دوست ہے۔ پاک امرےکہ دوستی کس سطح کی ہے اس کی حقےقت سے ساری دنےا تو واقف ہے لےکن اس دوستی کی نوعےت پر غور کرنا طالبان اپنی ذمہ داری نہےں سمجھتے۔ حکےم نے دوسری خرابی بےان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا تو سارا نظام ہی کافرانہ ہے ۔ اسی نظام کے تحت چلنے والے بہت سے دےنی ادارے جن مےں سے بہت سے مدارس کی حکےم صاحب کو حماےت بھی حاصل ہے ان کے نزدےک وہ کےا حےثےت رکھتے ہےں اس بارے مےں حکےم صاحب نے روشنی ڈالنا مناسب نہےں سمجھا۔ اسکے باوجود وہ حکومت سے مذاکرات کےلئے تےار ہےں لےکن پاکستان کوپہلے جنگ بندی کا اعلان کرنا ہوگا البتہ متوقع مذاکرات کی کامےابی اور ناکامی دونوں صورتوں مےں طالبان اپنی کاروائےاں جاری رکھےں گے۔
حکےم صاحب کے انٹروےو مےں بےان کردہ تفصےلات کافی دلچسپ ہےںمثلاََحکےم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کےلئے تاحال کوئی سنجےدہ کوشش نہےں کی گئی۔ وہ جن اقدامات کو سنجےدہ سمجھتے ہےں ان مےں سے اےک تو ےہ ہے کہ حکومت کو رسمی طور پر مذاکرات کا اعلان کرنا چاہےے اور دوسرے ےہ کہ مذاکرات کرنے کےلئے جرگہ بھجوانا چاہےے جس کو اُنکی جانب سے تحفظ کی ضمانت دی جائیگی۔ گوےا جن علاقوں مےں انتہاپسندوں کی عمل داری ہے وہاں حکومت کی رٹ قائم نہےں ہے۔ اپنے زےر کنٹرول علاقوں مےں شدت پسند گروپ اپنا قائم کردہ نظام چلا رہے ہےں اور اُنکے طرزِ عمل سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ حکومت پاکستان کی مذاکرات کرنے کی خواہش کو اس کی کمزوری سمجھتے ہےں۔ اسی بنا پر مےڈےا سے بات کرتے وقت ےا بےان جاری کرتے ہوئے شدت پسندوں کاانداز ڈکٹےٹ کرنے والا ہوتا ہے۔
اے پی سی کے بعد حالات جو رخ اختےار کرتے جا رہے ہےں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شدت پسند اپنی حرکتوں سے مذاکراتی عمل کو ابہام کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہےں۔ اے پی سی مےں سےاسی جماعتوں کی طرف سے جس نےک نےتی سے مذاکرات کے عمل کو شروع کرنے کی بات کی گئی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگاےا جا سکتا ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مےں کوئی پےشگی شرائط نہےں رکھی گئےں اس کے باوجود شدت پسندوں کی جانب سے کوئی مثبت جواب تاحال نہےں آےا بلکہ انکی طرف سے مطالبات اور من پسند شرائط کا سلسلہ رکنے مےں ہی نہےں آرہا۔ پہلا مطالبہ ےہ پےش کےا گےا کہ شمالی علاقوں مےں فوجی کاروائےاں بند کی جائےں بلکہ اور ان علاقوں سے فوج کو واپس بلوالےا جائے۔ پھر اپنے قےدےوں کی رہائی کا مطالبہ پےش کردےا گےا۔ اسکے بعد متوقع مذاکرات کو ڈرون حملے بند کرانے سے مشروط کر دےا گےااور اب اُن کا کہنا ہے کہ جو ملک ان سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے وہ تو اسکے آئےن کو بھی تسلےم نہےں کرتے۔ان مطالبات سے ابھی تک تو صرف ےہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابہام پےدا کرنے کے سوا اور کچھ نہےں کرنا چاہتے۔
شدت پسندوں کی ےہ منطق بڑی نرالی ہے کہ وہ اپنی شرائط اور طالبات کس کے سامنے پےش کر رہے ہےں؟ اُس حکومت سے جس کی رٹ کو ماننے کےلئے وہ تےار نہےں؟ اور اس فوج سے کاروائےاں بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہےں جس کے جوانوں پر حملے کر کے انھےں شہےد کرنے کا سلسلہ وہ تاحال جاری رکھے ہوئے ہےں۔ کےا انکے ےہ مطالبات اور شرائط فوج ےا حکومت دونوں کےلئے قابل قبول ہو سکتے ہےں۔ اس کا مطلب تو ےہ ہو گا کہ دہشت گردوں کے خلاف تو کاروائےاں بند کر دی جائےں لےکن ان سے دہشت گردی کے حملے روکنے کا مطالبہ نہ کےا جائے۔
اپنے تازہ انٹروےو مےں حکےم صاحب نے سےزفائر کے بڑے انوکھے طرےقے سے آگاہ کےا ہے وہ کچھ ےوں ہے کہ اگر ڈرون حملے بند کروا دئےے جائےں تو پھر دہشت گرد سےزفائر کےلئے تےار ہےں۔ لےکن اسکے ساتھ ہی اُنھوں نے اس بات کا اشارہ بھی دے دےا ہے کہ اب تک دہشت گرد طاغوتی قوتوں کا ساتھ دےنے والوں کو نشانہ بناتے رہے ہےں اور آئندہ بھی انھےں ٹارگٹ کےا جاتا رہے گا۔ گوےا ان کے نزدےک سےزفائر کی پےش کش محدود مدت کےلئے ہے۔ اب تک کی دہشت گردی کی 99فےصد کاروائےوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے لےکن اپنے انٹروےو مےں حکےم صاحب پبلک مقامات پر ہونیوالے حملوں سے لاتعلقی کا اظہار فرما رہے ہےں اور اس کا جواز ےہ پےش کر رہے ہےں کہ عوامی مقامات پر حملوں کا مقصد عوام کو طالبان سے متنفر کرنا ہے، تاکہ وہ لوگ جو ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہےںان کا ہم سے رابطہ ختم ہو جائے۔
اگر عوام پر حملے کوئی دوسری قوت کروا رہی ہے تاکہ طالبان کو بدنام کےا جا سکے اور عوامی حلقوں مےں موجود ان کی حماےت کو ختم کےا جا سکے تو پھر ان حملوں کو کس کھاتے مےں ڈالا جائیگا جن کا اعتراف طالبان خود کرتے ہےں زےادہ گہرائی مےں جانے کی ضرورت نہےں صرف خود کش حملے ہی دہشت گردوں کیخلاف رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے کافی ہےں۔ کےونکہ سب جانتے ہےں کہ خود کش حملے صرف طالبان ہی کرتے ہےں اور کوئی نہےں کر رہا۔
بی بی سی کی رپورٹ کیمطابق اگر حکومت اور طالبان کے درمےان ممکنہ مذاکراتی عمل کا آغاز نہےں ہوتا ےا مذاکرات کامےابی سے ہمکنار نہےں ہوتے تو پھر اےک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جنگ ۔ اس جنگ سے ماضی کی حکومتےں بھی اور موجود حکومت بھی ہر ممکن صورت مےں بچنا چاہتی ہے۔ اس کا پس منظر ےہ ہے کہ اس جنگ مےں عوام کا جانی نقصان زےادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ کوئی بھی حکومت عوام کا جانی نقصان برداشت نہےں کرتی اس لےے ہر حکومت کی جانب سے جنگ کو ٹالا جاتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت اس جنگ کو اس لےے ٹالنا چاہتی ہے کہ پنجاب اس جنگ کی لپےٹ سے محفوظ رہے لےکن گزشتہ دنوں پرانی انارکلی لاہور کے اےک ہوٹل مےں کےے جانیوالے دھماکے سے واضح اشارہ مل رہا ہے کہ طالبان دہشت گردی کی کاروائےوں کو پنجاب تک وسعت دےنے کی کوششوں مےں لگے ہوئے ہےں۔حکومت کو چاہےے کہ وہ اس صورتحال کو بھی مدنظر رکھے کہ جب جنگ ناگزےر ہو جائے تو پھر اس سے پےچھے ہٹنا ممکن نہےں رہتا۔ ملک کی سلامتی کےلئے اور عوام کے تحفظ کےلئے سخت پالےسےاں اختےار کرنی پڑتی ہےں، ہرقےمت پر جنگ لڑنی پڑتی ہے تاکہ عوام کو مزےد نقصانات سے محفوظ رکھا جا سکے۔
سنجیدہ مذاکرات کی نرالی منطق
سنجیدہ مذاکرات کی نرالی منطق
Oct 13, 2013