وی آئی پی کلچر یا وبائی مرض!

Oct 13, 2014

اسرا ر بخاری

یہ پاکستانی کے لئے حیرت زدہ کر دینے والا منظر تھا۔ یہ 1994ء کے کسی دن کا واقع ہے جب سعودی عرب کے شہر بریدہ القصیم کی شاہراہ طریق الیٰ مدینہ پر چھ سڑکوں کو ملانے والے سنگم پر ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز (موجودہ حکمران) کا موٹر گاڑیوں کا وسیع قافلہ نصف گزرا ہی تھا کہ ٹریفک کا اشارہ بند ہو گیا اور قافلہ میں شریک باقی گاڑیوں کے بریک چرچرائے اور وہ رک گئیں تقریباً چھ سات منٹ کے بعد دوبارہ اشارہ کھلنے پر یہ گاڑیاں روانہ ہوئیں تو آگے جانے والی گاڑیاں کافی دور جا چکی تھیں۔ پاکستانی کے لئے اس میں حیرت کا سامان یہ تھا کہ یہ قوم کے منتخب نمائندے یا کسی وی آئی پی کا قافلہ نہیں تھا یہ تو اس ملک کے مالک یعنی مستقبل کے بادشاہ کا قافلہ تھا مگر اس کے لئے ’’اشارے بند کئے گئے نہ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جبکہ پاکستانی اپنے ملک میں اس کے برعکس مناظر دیکھنے کا عادی تھا اسی طرح ایامِ حج میں منیٰ کو مکہ معظمہ سے ملانے والی سڑک پر واقع طویل سرنگ میں سے گاڑیوں کی آمد و رفت بند کر دی جاتی ہے اور مکہ کے گورنر کو بھی یہاں سے پیدل جانا پڑتا ہے۔ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار تو ایک طرف سوسائٹی میں ذرا سی بھی حیثیت کسی کو حاصل ہو جائے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور سکیورٹی گارڈز کے ساتھ سفر کرنا ہی وہ اپنی شان سمجھتا ہے۔ یہ وی آئی پی کلچر اس ملک میں وباء کی طرح پھیل گیا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کے گارڈ نے موٹرسائیکل گاڑی کے قریب لانے پر ایک نوجوان طالب علم کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔  مقتول ملک نواز کے والدین پیچھے کار میں آرہے تھے اُن کا کہنا ہے کہ انہوں نے عبدالقادر گیلانی کے ایما پر گارڈ کو فائرنگ کرتے خود دیکھا ہے۔ اس کیس کا کیا ہوگا اس کا اندازرہ پولیس کی تفتیش سے ہو سکتا ہے کہ نامزد مزید چھ ملزموں کی گرفتاری اور اس تفتیش کے بغیر کہ کیا مدعی پارٹی کے اس الزام پر فائرنگ عبدالقادر گیلانی کے ایما پر کی گئی۔ ملزم محمد خان کا ریمانڈ نہیں لیا گیا اور اسے جیل بھیج دیا گیا۔ پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم نے اعتراف کر لیا اور آلہ قتل برآمد ہو گیا ہے جبکہ عام کیسوں میں آلہ قتل برآمد ہونے کے باوجود اور نامزد ملزمان میں سے کسی ایک کے اعتراف کے باوجود باقی ملزموں کی گرفتاری تک اقراری ملزم کو پولیس کی تحویل میں ہی رکھا جاتا ہے۔ گارڈ نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس نے ٹانگ میں گولی ماری تھی جو سر میں جا لگی۔ اُدھر عبدالقادر گیلانی کا کہنا ہے واقعہ کے وقت وہ گاڑی میں تھا ہی نہیں جبکہ مقتول کے والد کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے عبدالقادر گیلانی کے ایماء پر گارڈ نے فائرنگ کی پاکستان میں قانون صرف غریب کیلئے ہی کی روایت ہے۔ پولیس اگر عبدالقادر پر اوّل تو ہاتھ ہی نہیں ڈالے گی اور اگر کیس میں ملوث ہو بھی گیا تو پیپلزپرٹی کے لیڈر اسے سیاسی مسئلہ بنا کر پنجاب حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کریں گے ان کی جانب سے وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے خلاف بیانات کا سلسلہ جلد شروع ہو جائے گا تاکہ ان پر دباؤ ڈالا جاسکے اور بالفرض عبدالقادر گیلانی مجرم ثابت ہو گیا تو انہیں شریعت یاد آجائے گی۔ دیت کے ذریعہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بطور قیدی جانے سے بچانے کی کوشش کی جائے گی۔ یوسف رضا گیلانی نے بیٹے کو بچانے کے لئے گارڈز رکھنے کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ اسے دھمکیاں مل رہی تھیں اور پیچھا کیا جا رہا تھا۔ تاہم عبدالقادر گیلانی کا وی آئی پی انداز بہت پرانا ہے۔ موصوف جب پنجاب اسمبلی کے رکن تھے سپیکر ڈپٹی سپیکر اپوزیشن لیڈر کے بعد یہ واحد رکن اسمبلی تھے جن کی مرسڈیز کار اسمبلی کی سیڑھیوں تک آتی تھی۔ بہرحال وی آئی پی کلچر صرف اس حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ ’’مرض‘‘ بہت سے لوگوں میں پھیلا ہوا ہے جو وبائی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی کی لعنت کے باعث حکمرانوں کی حفاظت کا جواز مہیا کیا جاتا ہے‘ لیکن اگر وہ عام گاڑیوں میں سفر کریں تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کون جا رہا ہے۔ ناگزیر ضرورت کے علاوہ  اپنی آمدورفت کے مقامات کو خفیہ رکھیں جہاں  کھلے عام جانا مجبوری ہو‘ حفاظتی انتظامات کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح لاہور شہر میں بہت سی پراڈو اور لینڈ کروزر گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی پھرتی ہیں جن کے رنگین شیشوں کے باعث اندر بیٹھنے والوں کی شکل تو کیا‘ تعداد بھی نظر نہیں آتی۔ ایسی کسی گاڑی میں اگر حمزہ شہباز‘ مریم نواز‘ وفاقی وزراء بلکہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی سفر کریں تو کسی کو کیا پتہ چلے گا۔ ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ سڑکوں پر مسلح پولیس بے شک تعینات کر دی جائے‘ لیکن نہ سڑکیں بلاک کی جائیں نہ اشارے بند کئے جائیں‘ کوئی نہیں جان سکے گا کس پرائیویٹ گاڑی میں کون سوار ہے یورپ جو دنیاوی لحاظ سے ہم سے کہیں آگے ہے‘ وہاں بھی وی آئی پی حیثیت والے لوگ بستے ہیں مگر ان کے انداز ہماری طرح شاہانہ نہیں ہیں۔ برطانیہ کا وزیراعظم ٹونی بلیئر بحیثیت وزیراعظم دس چھٹیاں گزارنے جاتا ہے تو پوری دنیا نے اخبارات میں شائع شدہ یہ تصویر دیکھی کہ ایئرپورٹ پر جاتے ہوئے وزیراعظم اور خاتون اول نے دو دو جبکہ بچوں نے ایک ایک ایک بیگ خود اٹھایا ہوا ہے۔ کیا پاکستان میں اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں