اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی طرف سے فوجی طاقت کے مظاہرے کا اسی انداز میں جواب دینے کے علاوہ پاکستان نے جارحانہ سفارتکاری کے ذریعے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے، جموں و کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیو یارک میں اقوام متحدہ، جنیوا اور اہم دارالحکومتوں میں پاکستان کے سفارتی مشن اس حوالے سے یاد دلائیں گے۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ بھارت کے جارحانہ رویہ کا اسی انداز میں جواب دے کیونکہ بھارت کے معاندانہ رویہ کو نظرانداز کرنے کا مطلب مزید معاندانہ رویہ کو دعوت دینا ہے۔ اسی طے شدہ فیصلہ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے جنرل اسمبلی سے بطور خاص مسئلہ کشمیر اجاگر کیا۔ وزیراعظم نواز شریف کو ذاتی تلخ تجربہ ہوا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی مخلصانہ کوشش کے تحت نئی دہلی گئے۔ لیکن ایک ماہ سے کم مدت کے دوران ان کے بھارتی ہم منصب نے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات منسوخ کر کے نہ صرف ان کی امید اور اعتماد کو ٹھیس پہنچائی بلکہ سیاسی اعتبار سے بھی انہیں نقصان پہنچانے کا سبب بنے۔ بھارتی رویہ نے سویلین اور عسکری قیادت کو بھارت پالیسی پر متفق ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلام آباد نے طے کیا کہ اٹلی میں آئندہ عالمی کانفرنس اور سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کے لئے کوئی جستجو نہیں کی جائے گی۔ البتہ دونوں وزیراعظم کے درمیان ایسے کسی موقع پر اچانک ملاقات کا امکان پیدا ہوتا ہے تو اس سے گریز بھی نہیں کیا جائے گا۔ بلاول کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے مسلسل تذکرہ نے بھی حکومت کی بھارت کے خلاف جارحانہ پالیسی کو تقویت دی ہے۔ آج سے شروع ہونے والے ہفتہ کے دوران اسلام آباد میں متعین غیرملکی سفیروں کو بھارتی جارحیت پر بریفنگ دینے کے علاوہ دفاعی اتاشیوں کو متاثرہ علاقوں کے دورے کرائے جانے کا امکان ہے۔
جارحانہ پالیسی