روز نامہ نوائے وقت 7۔اکتوبر 2015ء میں پیر پگاڑا کا بیان کالا باغ ڈیم کی تعمیرکے بارے میں شائع ہوا ہے جو پیر صاحب مذکور کی وطن اور قوم پرستی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔پیر صاحب نے بیان جاری کیا ہے کہ سندھ کی تمام سیاسی پارٹیاں ماسوائے پیپلزپارٹی کا لا باغ ڈیم کی تعمیر چاہتی ہیں۔ پیر پگاڑا اچھی طرح جانتے ہیںکہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر پاکستانی قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ پانی کا ضائع ہونا، سندھ میںسیلابی ریلوں کی آمد اور ملک بھر میں انرجی کی شدید قلت پر اگر قابو پانا ہے تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر جلد از جلد مکمل کرنا ہوگی۔ روزانہ جس طرح فالتو دریائی پانی سمندر میں گر رہا ہے ۔ اگر اس کو استعمال میں لایا جائے تو پورے ملک کی زراعت ، انڈسٹری، جنگلات اور ایکسپورٹ پر اسکے بڑے مثبت اور گہرے اثرات مرتب ہونگے۔پیر پگاڑا یہ بھی ضرور جانتے ہوں گے کہ اب تک کالا باغ ڈیم اور اسکی فزیبلٹی تیار کرنے پر اربوں روپے کے اخراجات ہو چکے ہیں۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کالا باغ ڈیم صرف پنجاب کے فوائد کیلئے ہے وہ سخت غلطی پر ہیں۔ دراصل جنرل فضل حق کو کہیں سے اشارہ ملا کہ ضیاء الحق اس کو ملازمت سے نکالنا چاہتا ہے چنانچہ اس نے بیگم نسیم ولی سے ملاقات کر کے اس کو کہا کہ ضیاء الحق کالا باغ ڈیم بنانا چاہتا ہے جس سے چارسدہ پانی میں ڈوب جائیگا اس لیے آپ اس کیخلاف آواز اٹھائیں کہ کالا باغ ڈیم سے صوبہ سرحد میںتباہی مچ جائیگی بلکہ چارسدہ بھی پانی میں ڈوب جائیگا۔ بیگم نسیم ولی نے اس چیز کو سیاسی سلوگن کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا اور یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ پنجاب کی زمینوں کو سیراب کرنے اور پنجاب کیلئے بجلی پیدا کرنے کیلئے یہ ڈیم بنایا جا رہا ہے۔اور ملک کے دیگر تینوں صوبوں کو برباد کیا جا رہا ہے۔
پٹھان صوبہ بلوچستان میں تقربیاً صوبے کی نصف آبادی کے برابر ہیں اور کراچی میں بھی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔بدیں وجہ بیگم نسیم ولی نے ہر جگہ یہ سلوگن چلایا ۔ بیگم نسیم ولی کی دیکھا دیکھی بلوچستان کے سیاسی لیڈروں اور سندھ کے سیاسی لیڈروں نے بھی مندرجہ بالا سلوگن کہ ’’ کالا باغ ڈیم نہیں بننے دینگے ‘‘ شروع کر دیا۔یوں کالا باغ ڈیم جو اس وقت اربوں روپے میں تعمیر ہونا تھا اب کھربوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہو سکے گا۔
نوشہرہ کے رہائشی سابق چیئرمین واپڈا شمس صاحب نے ایک مرتبہ دیگر سیاسی لیڈروں کے علاوہ بیگم نسیم ولی سے ملاقات کر کے اُن کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے قائل کرنا چاہا تھا ۔واپڈا کے چیئرمین نے بیگم نسیم ولی سے یہ بھی کہا تھا کہ میرا گھر نوشہرہ سے باہر دریائے سندھ کے قریب ہے اُنکے گھر کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں توبیگم صاحبہ آپ کو چارسدہ میں کونسا خطرہ نظر آتا ہے؟ بیگم نسیم ولی نے کہا مجھے معلوم ہے کالا باغ ڈیم بننے سے صوبہ سرحد کا کوئی نقصان نہیں ہو گا بلکہ اس سے صوبہ سرحد کی ترقی کے نئے باب کا آغاز ہو گالیکن میں ایک مرتبہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیخلاف نعرہ لگا چکی ہوں اس لیے اگر اب اسکے حق میں بولتی ہوں تو ہم سیاسی لوگ ہیں ہماری سیاست پر حرف آئیگا۔ مجھے چھ ماہ کیے لیے جیل میں بند کر وا دیں بعد میںرہا کر وا دیں کالا باغ کا کام شروع کر دیں۔ پیر پگاڑا کا بیان انشاء اللہ بڑا بابرکت ثابت ہوگا کیونکہ پچھلے دنوں کے پی کے کی اسمبلی میں بھی کالا باغ ڈیم کے حق میں قرار داد پیش ہوئی تھی جس میں 50فیصد ممبران نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں ووٹ دیئے تھے۔ توقع ہے عنقریب انشاء اللہ کے پی کے کی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں متفقہ قرارداد پاس ہو جائیگی۔
پنجاب اسمبلی میں پہلے ہی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں متفقہ قرار داد پاس ہو چکی ہے۔ پیر پگاڑا صاحب سے توقع کی جاسکتی ہے کہ سندھ اسمبلی سے بھی وہ کالا باغ ڈیم کے حق میں متفقہ قرار داد پاس کروالیں گے پھر بلوچستان اسمبلی بھی رب العالمین کے فضل سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں متفقہ قرارداد پاس کر دیگی۔ یوں راقم پر امید ہے ایک سال کے اندر اندر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا کام جہاں رکا پڑا ہے وہاں سے آگے بڑھنا شروع ہو جائیگا۔
جن حضرات کی عمر یں 60یا 65برس سے اوپر ہیں اُن کو یاد ہو گا جب 1962ء ۔ 1963ء میں تربیلاڈیم کی تعمیر کا نقشہ جاری ہوا تھا تو روزنامہ پاکستان ٹائمز کے علاوہ دیگر اخبارات میں پنجاب کے سیاسی لوگوں کے بیانات شائع ہونا شروع ہو گئے تھے کہ جس دن تربیلا ڈیم ٹوٹ گیاتو لاہور کے گورنر ہائوس میں 9فٹ پانی کھڑا ہو گا۔رب کریم کے کرم سے آج تک مذکورہ ڈیم کا بند نہیں ٹوٹا نہ اس کی جھیل سے پانی باہر نکلا ہے۔
محترم پیر پگاڑا صاحب سے درخواست ہے کہ وہ چاروں صوبوں کے سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں کر کے سب کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے رضا مند کر کے کارِخیر کا آغاز کریں کیونکہ مخلوق خدا کی بھلائی کا یہ منصوبہ ہے نہ نواز شریف نہ زرداری اور نہ عمران خان کی ذاتی بھلائی کیلئے یہ ڈیم بنے گا بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کی فلاح اس میں ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر جلد از جلد مکمل ہو اور ملک کی زراعت اورانڈسٹری میںترقی ہو ،تاکہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے شکنجے سے نجات حاصل کریں۔
اگر منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم ایوب خان کے زمانے میں تعمیر نہ ہو سکتے تووہ بھی سیاست کی نذر ہو جانے تھے ملک کی زمینیں آج بنجر پڑی ہوتیں اور ملک اندھیروں میں غرق ہو چکا ہوتا۔ نہ جانے بعض سیاسی لوگ اپنی ذاتی شہرت کیلئے ملکی اور قومی مفاد کے منصوبہ جات کی تعمیر میںرکاوٹیں کیوں کھڑی کر دیتے ہیں اگر کالا باغ ڈیم بروقت تعمیر ہو چکا ہوتا تو پروردگار کے فضل سے آج پاکستان کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا۔ آخرمیں محترم چیف آف آرمی سے التماس ہے جس طرح انہوں نے قومی مفاد کے دوسرے منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری پر ایک فرم سٹینڈ (Firm stand)لے رکھا ہے اسی طرح ملک و قوم کے مفاد کے لیے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے پر بھی سٹینڈ لیں تاکہ ملکی اور غیر ملکی کسی شخص یا ادارے کو اس منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے کی جرأت نہ ہو سکے۔
راقم کے کالموں کے کئی مہربان قارئین کے میسج آتے رہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں سیاسی رہنمائوں کو آمادہ کرنے کیلئے کالم تحریر کریں۔ اللہ بھلا کرے پیر پگاڑا صاحب کا اور اللہ تعالیٰ اُنکے ذریعے سے مذکورہ ڈیم کی تعمیر شروع کروا دے۔ اُن کے بیان کے سبب راقم کو مدلل کالم کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے فوائد کے بارے میں تحریر کرنے کا موقع مل گیا ہے۔اس چیز کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ کالا باغ ڈیم صرف پنجاب کے مفاد میں نہیں بلکہ پورے ملک کیلئے برابر کا افادہ رکھتا ہے۔ جس طرح بھارت دریائوں پر مقبوضہ کشمیر میں ڈیم تعمیر کر کے پاکستانی زمینوں کو بنجر کرنا چاہتا ہے اور ایوب خاں اور جواہر لال نہرو کے درمیان 1962ء میں اسلام آباد پاکستان میں ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی بھارت کر رہا ہے ہمیں اسکے سد ِ باب کیلئے جو جو کچھ ہو سکتا ہے کرنا ہوگا اوراس میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھی جلد از جلد اور اشد ضروری ہے یہ ڈیم پاکستان کی ترقی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔جانے پیپلزپارٹی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں کیوں نہیں حالانکہ زرداری خاندان اور بھٹو خاندان کے علاوہ کسی سندھی کو اس سے کوئی نقصان کا خدشہ نہیں بلکہ فوائد حاصل ہونے کی توقعات ہیں اور سندھ کے لوگوں کو سیلاب سے بچانے کیلئے بھی اس ڈیم کی تعمیر اشد ضروری ہے۔ پیر پگاڑا یا ہم مذکورہ ڈیم کی تعمیر کے بعد کی ملک میں ہونے والی ڈویلپمنٹ دیکھ سکیںیا نہ دیکھ سکیں لیکن ہماری آنیوالی نسلیں تو اس سے فیضیاب ضرور ہوں گی۔