عمران خان اب منتخب فورموں پر اپوزیشن کا مؤثر کردار اداکرکے سسٹم کو تقویت پہنچائیں
لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایازصادق نے الیکشن ٹربیونل سے کالعدم قرار پانے والے اپنے انتخاب کو جان توڑ مقابلے کے بعد پھر جیت کر یہ نشست دوبارہ اپنے نام کرلی۔ انہیں اپنے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان کے مقابلہ میں محض 2443 ووٹوں کی سبقت حاصل ہو سکی۔ ریٹرننگ افسر کے جاری کردہ اس حلقے کے غیرحتمی نتائج کے مطابق سردار ایاز صادق کو 74525 اور علیم خان کو 72082 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن صرف 819 ووٹ حاصل کرسکے۔ اس حلقے کی صوبائی نشست پی پی 147 کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے شعیب صدیقی نے میدان مارلیا جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار میاں محسن لطیف کے 28402 ووٹوں کے مقابلہ میں 31964 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اس طرح انہیں 3562 ووٹوں کی سبقت حاصل ہوئی۔ ریٹرننگ افسر کے مطابق حلقہ این اے 122 میں ٹرن آئوٹ 43.1 فیصد اور حلقہ پی پی 147 میں 44.42 فیصد رہا۔ دوسری جانب اوکاڑہ کے حلقہ این اے 144 کے ضمنی انتخاب میں آزاد امیدوار چودھری ریاض الحق جج نے حکمران مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں جماعتوں کے امیدواروں کو پچھاڑتے ہوئے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی۔ انہیں 85714 ووٹ حاصل ہوئے جبکہ انکے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے علی عارف چودھری کو 45199 اور تحریک انصاف کے اشرف سوہنا کو صرف 6356 ووٹ حاصل ہوسکے۔ اس طرح اشرف سوہنا کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی جبکہ اس حلقہ کے دوسرے آزاد امیدوار مہرعبدالستار نے بھی ان سے زیادہ ووٹ حاصل کئے جو 14186 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ اس حلقہ میں پیپلزپارٹی کے امیدوار سجادالحسن صرف 4325 ووٹ حاصل کر پائے۔
حلقہ این اے 122 پر ضمنی انتخاب اگرچہ قومی اسمبلی کی محض ایک نشست کا انتخاب تھا تاہم اس انتخاب کو قومی سطح پر اس لئے اہمیت حاصل ہو گئی کہ یہ ان چار حلقوں میں شامل تھا جنہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات لگاتے ہوئے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان چار میں سے تین حلقے کھلے تو الیکشن ٹربیونلوں نے ان تینوں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی کالعدم قرار دے کر ازسرنو انتخاب کا حکم دیا۔ تاہم لاہور کے حلقہ این اے 125 پر ٹربیونل کے فیصلہ کیخلاف خواجہ سعدرفیق نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی اور اپنی نشست پر حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ اسی طرح حلقہ این اے 154 لودھراں کا انتخاب کالعدم ہونے پر بھی مسلم لیگ (ن) کے رکن صدیق بلوچ نے ٹربیونل کا فیصلہ عدالت عالیہ میں چیلنج کیا اور حکم امتناعی حاصل کرلیا۔ چنانچہ حلقہ این اے 122 وہ واحد نشست ہے جس پر سردار ایاز صادق نے اپنی پارٹی قیادت کے فیصلہ کے تحت ضمنی انتخاب میں جانے کا راستہ اختیار کیا جبکہ تحریک انصاف نے بھی ضمنی انتخاب کا چیلنج قبول کرتے ہوئے اپنی ساری توجہ اس ایک ضمنی انتخاب پر مرتکز کر دی البتہ عمران خان نے‘ جنہیں عام انتخابات میں اس حلقہ میں شکست ہوئی تھی‘ خود میدان میں آنے کے بجائے علیم خان کو پی ٹی آئی کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اتارا اور پھر اس نشست کو دھاندلیوں سے متعلق اپنے الزامات کو تقویت پہنچانے کیلئے ٹیسٹ کیس بنالیا۔ اسی تناظر میں عمران خان نے خود بھی اس حلقے میں دو جلسے کئے جبکہ پی ٹی آئی کے آرگنائزر سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک کے علاوہ پی ٹی آئی کے دوسرے عہدیداران بھی اس حلقہ میں انتخابی مہم کیلئے سرگرم عمل ہو گئے چنانچہ اس حوالے سے یہ حلقہ حکمران مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی اپنی سیاسی بقاء کے حوالے سے ٹیسٹ کیس بن گیا اور اس پارٹی نے بھی اپنے تمام وسائل اس ایک حلقہ میں جھونک دیئے جہاں وزیراعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزراء کے علاوہ وزیراعظم نوازشریف بھی بالواسطہ انتخابی مہم میں شریک ہوئے اور متعدد ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کرتے رہے جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے مسلم لیگ (ن) پر اس حلقے میں حکومتی سرکاری وسائل اور مشینری بروئے کار لانے کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے۔
اس حلقہ کے ضمنی انتخاب میں بے شک حکومتی پارٹی کے امیدوار سردار ایازصادق نے کامیابی حاصل کرلی ہے اور اس طرح انہوں نے اس حلقہ میں 50 ہزار سے زائد جعلی ووٹ پڑنے سے متعلق عمران خان کے دعویٰ کو بھی غلط ثابت کر دیا اور اسی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز 12 اکتوبر کا یوم سیاہ یوم فتح کے طور پر منایا تاہم اس حلقہ میں حکومتی پارٹی کے امیدوار کا محض 2443 ووٹوں کی معمولی اکثریت سے جیتنا اس پارٹی کیلئے لمحۂ فکریہ ہے جس پر حکمران پارٹی کی قیادت کو اس لئے بھی فکرمند ہونا چاہیے کہ وہ اس حلقہ سے منسلک اپنی جیتی ہوئی صوبائی نشست پی پی 147 پر اپنے گھر سے لائے گئے امیدوار میاں محسن لطیف کو سردار ایازصادق کی طرح دوبارہ منتخب نہیں کراسکی۔ اس حلقہ میں فوج کی زیرنگرانی شفاف انتخاب ہونے کے باعث کسی کیلئے دوران پولنگ دھاندلیوں کے الزامات عائد کرنے کی تو گنجائش نہیں رہی اور اسی بنیاد پر تحریک انصاف کے امیدوار اور قائدین نے انتخابی عمل پر تحفظات کا اظہار کرنے کے باوجود اسکے نتائج تسلیم کرلئے ہیں اس لئے اب اس حلقہ کی قومی اور صوبائی نشست کے ضمنی انتخاب میں برآمد ہونیوالے نتائج سے ہی حکمران مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے اپنی سیاسی حیثیت اور عوام میں اپنی مقبولیت کو پرکھنا ہے۔ لاہور کو بالعموم مسلم لیگ (ن) کا قلعہ سمجھا جاتا ہے اور وہ اسی پس منظر میں گزشتہ تقریباً 35 برس سے ماسوائے جنرل مشرف کے اقتدار کے 9برس کے‘ کسی نہ کسی حیثیت میں اقتدار میں موجود ہے چنانچہ لاہور کے قلعہ میں اپنے گھر کی صوبائی نشست پر شکست کھا جانا مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے بہرصورت لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کیونکہ آج پیپلزپارٹی کے برعکس تحریک انصاف انہیں انکے گھر میں آکر نہ صرف چیلنج دے رہی ہے بلکہ قومی اسمبلی میں کانٹنے دار مقابلہ بھی کرچکی ہے اور انکے گھر کی صوبائی نشست جیت بھی چکی ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کو ہرصورت اپنی صف بندی کرکے عوام کی ناراضگی کا باعث بننے والی غلط پالیسیوں کو درست کرنا ہوگا۔ اب بظاہر سیاسی میدان میں حکومت کیلئے آئندہ انتخابات تک کوئی چیلنج نہیں رہا مگر اپنے اقتدار کی میعاد تو جیسے تیسے پیپلزپارٹی نے بھی پوری کرلی تھی جسے بالآخر اگلے انتخاب میں اپنی عوام دشمن پالیسیوں کا خمیازہ بدترین شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا اور اب اس پارٹی کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ خود اسکے نظریاتی کارکن بھی اسکے امیدواروں کو ووٹ دینے سے گریزاں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو اب نئی صف بندی کیلئے پیپلزپارٹی کے انجام کو بھی سامنے رکھنا ہے اور قلعۂ لاہور میں اپنی مقبولیت کھونے کا بھی جائزہ لینا ہے ورنہ آئندہ انتخابات میں اس کا انجام بھی پیپلزپارٹی جیسا ہی ہوگا کیونکہ عوام کے پاس اب عمران خان کی شکل میں متبادل موجود ہے۔ اسی طرح عمران خان کو بھی لاہور کے نتائج پر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہیے بلکہ اوکاڑہ کے ضمنی انتخاب کے نتائج کو پیش نظر رکھ کر اپنی نئی سیاسی حکمت عملی طے کرنی چاہیے جہاں ان کا امیدوار اپنی ضمانت تک ضبط کرا بیٹھا ہے۔ اقتدار کی منزل تک پہنچنے کیلئے انہیں اپنے مجموعی ووٹوں کا تناسب بھی بہتر بنانا ہوگا اور اب دونوں حلقوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرکے قومی اور پنجاب اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ دھرنا سیاست کے بجائے منتخب فورموں کے اندر بیٹھ کر بھی حکومتی غلطیوں کی نشاندہی کرکے حکمرانوں کی خبر لے سکتے ہیں۔ وہ اپوزیشن کا مثبت اور مؤثر کردار ادا کرینگے تو حکومتی پالیسیوں سے مایوس ہونیوالے عوام کا مزید اعتماد حاصل کرینگے اور اس طرح انکی سیاست کی پختگی دو اڑھائی سال بعد وفاقی اقتدار کیلئے انکے خواب کی تعبیر بھی بن سکتی ہے جبکہ اقتدار کیلئے جلدی میں سیاسی افراتفری کو فروغ دینے سے انکے اقتدار کے خواب ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔