احمد کمال نظامی
kamal fsd5050@hotmail.com
فیصل آباد کی 157 یونین کونسلز، ضلع کی 189دیہی کونسلز اور سمندری، جڑانوالہ، تاندلیانوالہ، چک جھمرہ، ماموں کانجن اور ڈجکوٹ سمیت 7میونسپل کمیٹیوں کے 122وارڈز میں کامیابی کے لئے چیئرمین، وائس چیئرمین، کونسلرز، دیہی کونسلرز وغیرہ کے امیدوار اپنا پورا زور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے لگا رہے ہیں۔ چیئرمین سمیت 168امیدوار بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں تاہم بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے خواب کو لئے امیدوار پانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہےں ، دوسری طرف چیئرمین ضلع کونسل، سٹی میئر، ڈپٹی میئرز اور میونسپل کمیٹیوں کے ناظمین کے لئے دوڑ دھوپ بھی تیزی کے ساتھ شروع ہو چکی ہے۔ کون چیئرمین ضلع کونسل اور کون شہر کا میئر منتخب ہو گا اس بارے میں ہر دوسرا شہری سوال کرنے لگا ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کو اس وقت اس قدر عروج حاصل ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف معمولی سی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف حکمران جماعت بمقابلہ حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) ہی ہے اور حقیقی معنوں میں بھی یہی تصویر سامنے آ رہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کا اصل مقابلہ اپنے ہی مخالف دھڑے کے امیدواروں کے ساتھ ہے۔ شہر میں تو مسلم لیگ(ن) سابق میئر چوہدری شیرعلی کے میئر گروپ اور صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ خاں کے شیرہیرا گروپ میں تقسیم نظر آ رہی ہے ، چوہدری شیرعلی اپنے بیٹے عامر شیرعلی اور رانا ثناءاللہ رکن پنجاب اسمبلی محمد نواز ملک کے بھائیوں ریاض ملک ، رزاق ملک میں سے کسی ایک کو سٹی میئر کا امیدوار لانے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے سابق سٹی ناظم اور سابق رکن صوبائی اسمبلی خواجہ محمد اسلام نے بھی نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ وہ بھی سٹی میئر کے امیدوار ہو سکتے ہیں،آئندہ کسی نشست سے ضرورت پڑنے پر مستعفی ہو کر ضمنی الیکشن لڑ کر میئر کے امیدوار کے طور پر حکمران جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے سامنے آ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں تو کھینچاتانی، محاذ آرائی، دھڑے بندی اور شہر کی 70فیصد سے زائد یونین کونسلز میں سیاسی جنگ اپنے نکتہ عروج پر ہے ہی جبکہ چیئرمین ضلع کونسل کے لئے بھی مسلم لیگ(ن) ہی میدان میں نظر آ رہی ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں عبدالمنان نے اس بارے میں نشاندہی کی ہے کہ چیئرمین ضلع کونسل کی نوعیت سٹی میئر سے کافی مختلف ہو گی کہ چیئرمین ضلع کونسل کے لئے آزاد حیثیت سے یا کوئی تیسرا چوتھا گروپ بھی سامنے آ سکتا ہے اس لئے دیکھنا پڑے گا کہ کون مضبوط امیدوار ہو گا،کس کے ساتھ زیادہ اکثریت ہو گی۔ چیئرمین ضلع کونسل کے لئے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے رکن قومی اسمبلی میاں محمد فاروق کے بیٹے ، مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر میاں قاسم فاروق بھی متوقع امیدوار ہیں، میاں قاسم فاروق کا کہنا ہے کہ پارٹی نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ کسی بھی لوٹے کا ساتھ دینے والے کو چیئرمین ضلع کونسل کا امیدوار نہیں لایا جائے گا۔لوٹے ایم این اے یا ایم پی اے تو ہو سکتے ہیں لیکن ضلع کونسل کے امیدوار نہیں ہو سکتے۔ ان کا اشارہ مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی چوہدری عاصم نذیر کے بھائی ناظم زاہد نذیر چوہدری کی طرف تھا۔ وہ پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے بات نہیں کر سکتے لیکن لوٹے چیئرمین ضلع کونسل کے لئے امیدوار نہیں ہوں گے۔ چک جھمرہ سے رکن صوبائی اسمبلی،سابق سپیکر چوہدری افضل ساہی بھی اپنے بیٹے جنید افضل ساہی کو چیئرمین ضلع کونسل کے امیدوار لانے کا عندیہ دے چکے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت نے ٹکٹ دیا تو ان کا بیٹا چیئرمین ضلع کونسل کا امیدوار ہو گا وگرنہ وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ سابق ضلعی ناظم زاہد نذیر چوہدری بھی مسلم لیگ(ن) کی طرف سے چیئرمین ضلع کونسل کے متوقع امیدوار بننے کے لئے دوڑدھوپ کر رہے ہیں،ان کی طرف سے چک جھمرہ ودیگر میونسپل کارپوریشنوں میں جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں عبدالمنان نے کہا کہ میئر کا امیدوار پارٹی کارکنوں ۔ اراکین اسمبلی کی سفارش پر میاں محمد نوازشریف پسند کریں گے، میاں محمد نوازشریف نے انہیں یقین دلایا ہے کہ کسی بھی عہدیدار یا اراکین اسمبلی کا رشتے دار میئر کا امیدوار نہیں ہو گا لیکن انہوں نے کہا کہ برادری کی بنیاد یا جو بھی کہہ لیں میاں قاسم فاروق،زاہد نذیر چوہدری دونوں میں سے کسی کی تردید نہیں کی ہے۔ لہٰذا چیئرمین ضلع کونسل کے لئے خیال کیا جا رہا ہے کہ اصل مقابلہ میاں قاسم فاروق اور زاہد نذیر چوہدری کے درمیان ہو گا کیونکہ ساتوں میونسپل کارپوریشنوں میں جس انداز میں مسلم لیگ(ن) کے اراکین اسمبلی بلدیاتی امیدواروں کو سامنے لائے ہیں اس سے دونوں متوقع چیئرمین ضلع کونسل کے امیدواروں کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ چک جھمرہ میں مسلم لیگ(ن) کے پرانے کارکنوں کی طرف سے اراکین اسمبلی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے ٹکٹیں غیرمنصفانہ انداز میں تقسیم کیں، اس طرح سے چک جھمرہ میں مسلم لیگ(ن) کے اراکین اسمبلی نے جن لوگوں کو امیدوار نامزد کیا ہے وہاں پر ان کے امیدواروں کے مدمقابل آزاد حیثیت سے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار موجود ہیں۔ تاندلیانوالہ میں تمام 17وارڈز کو مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں رجب علی خاں بلوچ ،رکن صوبائی اسمبلی جعفر علی ہوچہ کے درمیان اختلافات کی وجہ سے اوپن رکھے گئے ہیں کسی ایک امیدوار کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا۔ سمندری میں بھی اختلافات حد سے زیادہ موجود ہیں یہاں تک کہ سمندری تحصیل کے مسلم لیگ(ن) کے صدر چوہدری نذیر باجوہ اپنے بھتیجے تک کو ٹکٹ دلوانے میں ناکام رہے کہ رکن صوبائی اسمبلی را¶ کاشف رحیم نے ان کی شدید مخالفت کی۔ نذیر باجوہ کا کہنا ہے کہ ان پر مشرف دور میں چالیس سے زیادہ مقدمات قائم ہوئے،اراکین اسمبلی نے نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کر دیا ہے۔ گویا سمندری تحصیل میں بھی مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کے مقابلے میں ان کے اپنے ہی امیدوار موجود ہیں۔ جڑانوالہ میں صورت حال بھی زیادہ اچھی نہیں ۔ مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری اور ان کے چچا سابق جڑانوالہ ٹا¶ن ناظم چوہدری محمد اکرم اپنے برادرنسبتی عزیزالحسن کے لئے بھی پارٹی کا ٹکٹ لینے میں ناکام رہے انکے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ جڑانوالہ میں رائے صلاح الدین خاندان کے ساتھ ان کے اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں جب چاروں تحصیلوں میں صورت حال یہ ہے تو مسلم لیگ(ن) بمقابلہ مسلم لیگ(ن) ہونے کے باعث جو امیدوار کامیاب ہوں گے انہیں مسلم لیگ(ن) کے بورڈ نے ٹکٹ جاری کئے یا نہیں۔ قوی امکان ہے کہ جیتنے والے مسلم لیگ(ن) کے ہی امیدوار ہوں گے۔ ایسی صورتحال میں جبکہ اراکین اسمبلی کی طرف سے ٹکٹیں جاری کرنے کے باوجود مسلم لیگ(ن) کے کارکن کھل کر میدان میں ہیں اور بغاوت کا علم بلند کئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح اراکین اسمبلی سر پکڑ کر سارے حلقوں کو شدید تر اختلافات کی وجہ سے اوپن رکھنے پر مجبور ہیں تو اس کا فائدہ آزاد حیثیت سے کوئی بھی کر سکتا ہے، امکان یہی ہے کہ زاہد نذیر چوہدری پیسے کے بل بوتے پر ان امیدواروں کو خریدنے کے اپنے دا¶ پیچ آزمائیں گے۔ میاں قاسم فاروق بھی میدان میں پوری قوت کے سے موجود ہیں ، لیکن پیسے کا بے دریغ استعمال ضروری سمجھا جا رہا ہے جو بلاشبہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے خلاف ہے۔ میاں عبدالمنان نے آزاد حیثیت یا تیسرے چوتھے گروپ کے سامنے آنے کی جو پیش گوئی کی ہے اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مسلم لیگ(ن) میں اختلافات ودھڑے بندی کا بھرپور فائدہ کوئی بھی گروپ اٹھا سکتا ہے۔اس لئے ہم یہ تجزیہ دے رہے ہیں کہ چیئرمین ضلع کونسل کے لئے اصل مقابلہ زاہد نذیر چوہدری و میاں قاسم فاروق کے درمیان ہوگا اگر کسی صورت میں جس کے امکان بہت کم نظر آ رہے ہیں مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے کوئی نیا امیدوار سامنے لاکھڑا کیا تب بھی زاہد نذیر چوہدری آزاد حیثیت سے جوڑ توڑ کر کے اپنے آپ کو کامیاب کروانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کی جھولی میں جا گرنے کی حکمت عملی ترک نہیں کریں گے۔ ایسے میں میاں قاسم فاروق کیا کریں گے اس کا حتمی فیصلہ ان کے والد میاں محمد فاروق نے کرنا ہے کیونکہ وہ مسلم لیگ(ن) کے قائد وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے خاص سمجھے جاتے ہیں،ان کے لئے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنا بہت مشکل ہو گا۔ مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں محمد فاروق نے اس صورت حال میں تازہ انکشاف کیا ہے کہ جس طرح ماضی میں ان کے صاحبزادے معظم فاروق کی طرف اشارہ کر کے نوازشریف نے انہیں چیئرمین ضلع کونسل بنوایا تھا، اسی طرح اب بھی میاں محمد نوازشریف ان کے بیٹے میاں قاسم فاروق کے لئے ایسا اشارہ کر سکتے ہیں جس کے بعد زاہد نذیر جو الیکشن کمیشن کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانی کی طرح پیسے بہا رہے ہیں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا اگر انہوں نے پارٹی قیادت کو بلیک میلنگ کی کوشش کی جو وہ کر رہے ہیں تو اس کی بھرپور مزاحمت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ میاں قاسم فاروق کے لئے نوازشریف جلد ایسا اشارہ کر سکتے ہیں ایسی صورت میں زاہد نذیر، میاں قاسم فاروق کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے کیونکہ اس مرتبہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہو رہے ہیں اور مسلم لیگ(ن) حکمران جماعت ہے۔ حکمران جماعت کے ساتھ ٹکر لے کر ہارس ٹریڈنگ اور امیدواروں کی قیمت لگا کر خریدنا زیادہ آسان کام نہیں ہو سکتا۔ میاں فاروق نے سٹی میئر کے لئے بھی اہم بات کی ہے کہ شیرعلی،ثناءاللہ دونوں نوازشریف کے بندے ہیں ان میں سے جو جیتے گا وہ نوازشریف کے پاس جا کر مسلم لیگ(ن) جوائن کر لے گا،نوازشریف سے میئرشپ کے امیدوار کا پارٹی ٹکٹ لے آئے گا۔سٹی میئر کے لئے عامرشیرعلی، رکن صوبائی اسمبلی نواز ملک کے بھائیوں کے علاوہ کوئی بھی نیا نام سامنے آ سکتا ہے جیسے خواجہ محمد اسلام نے اپنے امیدوار ہونے کی بھی نوید سنائی ہے کہ اس آپشن کو میئرگروپ نظرانداز نہیں کر رہا۔ فیصل آباد سٹی اور ضلع میں جس قسم کا انتخابی ماحول پیدا کیا جا رہا ہے،ایک دوسرے پر الزامات کی برسات ہو رہی ہے اس سے کچھ خدشات بھی جنم لے رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات غیرجانبدارشفاف ہونا ایک طرف رہے لیکن یہ انتخابات خونی رنگ تو اختیار نہیں کر لیں گے،جو سیاست دان اپنے اپنے گروپوں کو لیڈ کر رہے ہیں ان کی زبان بھی شعلے اگل رہی ہے ۔ اس خدشہ کو تقویت اس خبر سے ملتی ہے کہ فیکٹری ایریا میں الیکشن آفس میں صلح کے لئے آنے والے فریقین کے مابین جھگڑا کے نتیجہ میں چچا،بھتیجا زخمی ہو گئے، تھانہ فیکٹری ایریا پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ انتخابات کو پرامن فضا میں منعقد کرنے کے لئے فیصل آباد کے 3906 میں سے838پولنگ سٹیشن کو حساس قرار دے دیا گیا ہے جو اس امر کی نشانی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر تصادم کا خطرہ ہے۔ انتظامیہ نے رینجرز، ایلیٹ فورس اور پنجاب کانسٹیبلری سمیت چودہ ہزار کی نفری سیکورٹی ڈیوٹی سرانجام دینے کا سیکورٹی پلان مرتب کر رکھا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ بلدیاتی الیکشن سٹاف کو 20اکتوبر تک تربیت دینے کا پروگرام وضح تو کیا گیا تھا لیکن تربیت حاصل کرنے والوں کو ابھی تک گائیڈ بکس ہی فراہم نہیں کی جا سکیں۔ یہ الیکشن کمیشن کی نااہلی اور غفلت ہے کہ سٹاف کو انتخابات کرانے کا بنیادی ڈھانچہ کتابی صورت میں فراہم کرنا ہوتا تھا کہ اس کتابچہ میں تحریر کردہ قوانین اور قواعد و ضواےبط پر سٹاف نے عمل کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی سرانجام دینی ہوتی ہے۔ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو انتخابات میں بڑے پیمانہ پر بے ضابطگیوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔جس شہر اور ضلع کے 883 پولنگ سٹیشن حساس قرار دیئے جا چکے ہوں، وہاں امن کی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے کیسے کیسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے کہ بلدیاتی انتخابات پرامن ماحول میں ہوں اور گروپ لیڈر ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی مہم کو بلدیاتی مسائل کے حل تک محدود رکھیں، الزام تراشی سے دامن بچائیں مگر ایسا محسوس نہیں ہوتا ۔
بدقسمتی سے یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے جو جمہوریت کے ارتقاءاور فروغ کے راستے میں ایک دیوار کا درجہ رکھتا ہے۔ چوہدری شیرعلی اور رانا ثناءاللہ خاں کے گروپوں کے درمیان ہی مقابلہ کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ دونوں گروپ ایک دوسرے کا گریبان چاک کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔صورت حال یوں ہے کہ 157نشستوں پر ان دونوں گروپوں کے 124 کے قریب امیدوار ہیں۔ فیصل آباد سٹی کا میئر اور ڈپٹی میئر انہی گروپوں میں سے کوئی ایک ہو گا۔ پیپلزپارٹی نے جو 13حلقوں میں شیر پر جبکہ 40حلقوں کو اوپن رکھ کر امیدوار کھڑے کئے ہیں ان میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں؟ پیپلزپارٹی یقینی طور پر ایک عوامی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی، اس کی جڑیں عوام میں ہونے کا آج بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد اس قدر زوال کا شکار ہوئی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے لئے اسے امیدوار نہ مل سکیں، پیپلزپارٹی کے سٹی صدر رانا مشتاق احمد اس زوال کی تمام تر ذمہ داری سابق صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد، عہدیداران اور ٹکٹ ہولڈرز پر عائد کرتے ہوئے سینے کے داغ اور دل کے پھپھولے یوں بیان کئے ہیں کہ ان لوگوں نے سٹی تنظیم کو ایک امیدوار بھی نہیں دیا، چونکہ ان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں اور انہوں نے ہی پیپلزپارٹی میں مسائل پیدا کئے۔ راجہ ریاض احمد اور عہدیداروں کی نااہلی اور پارٹی کی بجائے ذاتی مفاداتی سیاست کی بدولت پارٹی کے ورکروں میں بددلی پھیلی۔ اس کے باوجود پیپلزپارٹی کے انتخابی نشان تیر پر 13حلقوں میں امیدوار میدان میں موجود ہے۔ رانا مشتاق احمد نے سابق صوبائی وزیر چوہدری بدرالدین پر بھی شدید تنقید کی ، کہ چوہدری بدرالدین نے سٹی تنظیم کے خلاف رابطہ کمیٹی بنائی،اپنے بھائی عمردراز کو اس کا لیڈر بنایا جو تین روز قبل ن لیگ کے ساتھ مل گیا۔ پارٹی سے وفاداری ان کے کردار نے ثابت کر دیا ہے۔ رانا مشتاق احمد نے کہا کہ راجہ ریاض احمد، چوہدری بدرالدین، پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز اور عہدیدار ہی پارٹی زوال کا باعث ہیں۔ تاہم مسلم لیگ(ن) کے رہنما، سابق میئر اور سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری شیرعلی جنہوں نے صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ خاں پر سیاسی بدتری حاصل کرنے کے لئے جماعت اسلامی سے سیاسی اتحاد کیا تھا، یوم آزادی کے جلسہ میں رانا ثناءاللہ خاں کو قاتل قرار دیتے ہوئے بیس افراد کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ۔ جماعت اسلامی کے ضلعی امیر سردار ظفر حسین نے میئرگروپ کے قائد چوہدری شیرعلی پر الزام عائد کرتے ہوئے اتحاد کو سبوتاژ کرنے اور اپنے مفادات کے لئے دوسروں کے کاندھے پر بندوق رکھ کر فائر کرنے والا شکاری قرار دیا۔پیپلزپارٹی کے رانا مشتاق احمد نے انتظامیہ اور پولیس پر الزام عائد کیا کہ بلدیاتی انتخابات میں سرکاری مشینری مداخلت کرتے ہوئے انتخابات پر اثرانداز ہو رہی ہے، حکمران جماعت کے لئے فریق بن کر اپنا کردار ادا کر رہی ہے لیکن ہم سرکاری مشینری،پولیس کی مداخلت کے باوجودمیدان سے بھاگیں گے اور نہ سرکاری مشینری کی کسی سازش کو کامیاب ہونے دیں گے۔ میئرگروپ کے قائد چوہدری شیرعلی نے ایک اور اہم نشاندہی کی ہے کہ اگر وہ میئرگروپ نہ بناتے تو 75 فیصد لیگی تحریک انصاف میں چلے جاتے۔ چوہدری شیرعلی اور رانا ثناءاللہ خاں اپنے اپنے سیاسی وجود کی سلامتی اور بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں،ان گروپوں سے وابستہ امیدوار اب بھی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی بھی اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں جبکہ انتخابات کے حوالہ سے تحریک انصاف کے ورکرز اب بھی اپنے لیڈروں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ فیصل آباد سٹی میں مقابلہ تو چوہدری شیرعلی اور رانا ثناءاللہ خاں کے درمیان ہی ہو گا ، میئر، ڈپٹی میئر کی جنگ کا نتیجہ تو 31اکتوبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج ہی سے نکلے گا۔ ضلع فیصل آباد کی صورت حال فیصل آباد سٹی کے برعکس ہے، مسلم لیگ(ن) گو آپس میں دست و گریباں ہے لیکن جماعتی انتخاب کی بجائے شخصی اور گروہی انتخاب کا رنگ غالب ہے۔ اگر ایک طرف ساہی برادران ہیں تو ان کے مقابلہ میں میاں فاروق ایم این اے خاندان بھی ہے۔ چوہدری زاہد نذیر بھی اپنی برادری کے بل بوتے پر چانس حاصل کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔ رانا زاہد توصیف بھی تحریک انصاف کی طرف سے میدان میں موجود ہیں لیکن ضلع فیصل آباد میں ضلعی ناظم کا مقابلہ مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے عاصم نذیر کے بھائی چوہدری زاہد نذیر سابق ضلعی ناظم اور میاں فاروق رکن قومی اسمبلی کے بیٹے مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر قاسم فاروق کے درمیان ہونے کی زیادہ توقع ہے ،تحریک انصاف کسی حد تک شہر میں تو مقابلے میں نظر آتی ہے مگر ضلع میں منظر سے غائب ہے۔ نوٹ اور ووٹ کا فلسفہ اپنی جگہ رہا لیکن ایک بات تو عیاں ہو چکی ہے کہ انتخابات کو روپے کا کھیل بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اس کھیل کو جنرل ضیاءالحق کے عہد میں فروغ حاصل ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں اور یہ بلدیاتی انتخابات تبدیلی کا سنگ میل ضرور ثابت ہوں گے؟ اگر عوام باشعور ہونے کا ثبوت دیں مگر ہمارا یہ حال ہے کہ آج کل زائچہ نکالنے والوں کی بھی چاندی ہو رہی ہے اور کچھ امیدوار بھی کسی نہ کسی ماہر نجوم اور فلکیات کے ہاں چور دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔