وہی ہوا جو ہونا تھا کہ ایاز صادق جیت گئے، یہ وہ خاموشی تھی جسکے پیچھے طے شدہ طوفان تھا۔ ایاز صادق یونہی نہیں صبر سے بیٹھ گئے تھے۔ عدالت کا دروازہ بھی اسی لئے نہیں کھٹکھٹایا تھا کہ معاملات دوسرے دن ہی چند بڑوں کے درمیان طے پا گئے تھے۔ ایاز صادق بظاہر شریف آدمی لگتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ سیاست میں کون اتنا شریف ہوتا ہے۔ ویسے بھی اب ’’شریف‘‘ کا مطلب مفہوم بدل چکا ہے۔ مائیں لاڈ سے اپنے بچے کو ’’بھولا‘‘ پکارتی ہیں اور یہی ’’بھولا‘‘ سب سے چالاک نکلتا ہے۔ ایاز صادق کے جیتنے سے کوئی خاطر خواہ فائدہ تو نہیں ہو گا مگر ہاں نہ جیتنے کی صورت میں بحران شاید جوں کا توں رہتا۔ دوسری طرف عبدالعلیم خان ہیں جن کی دولت اور شہرت کے خاصے چرچے مشرف دور سے ہی چلے آ رہے ہیں عبدالعلیم خان کا ہارنا ہی بہتر رہا۔ جیت جاتے تو کرپشن کی ایک نئی داستان کا آغاز ہو جاتا۔ شاید یہ داستان الف لیلیٰ کی داستان سے زیادہ دلچسپ اور طویل ہوتی اور ’’کرپشن‘‘ کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا پڑتا۔ عبدالعلیم خان کے جیتنے سے عمران خان بلاوجہ آپے سے باہر ہو جاتے اور پروٹوکول کی بھوک زیادہ بڑھ جاتی۔ پھر بنی گالہ میں ایک کی جگہ دو ہیلی کاپٹر کھڑے ہوتے اور بقول مسلم لیگی رہنما کے ریحام خان ہیلی کاپٹر کو رکشہ کی طرح استعمال کرتی۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف شادیانے بج رہے ہیں تو دوسری طرف صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ عمران خان بدزبانی پر اتر آئے ہیں اور سوتے میں بھی بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ خدا جانے کس بیوقوف نے انہیں کہا تھا کہ وہ سیاست میں آئیں اور وزیراعظم بننے کے خواب دیکھیں۔ 64 برس کی عمر میں 24 سال کے لڑکے والی حرکتیں کرکے وہ خود کو چار دہائی پہلے کا نوجوان بائولر یا پانچ دہائی پہلے کا ایچی سونین بوائے سمجھتے ہیں۔ کل کلاں کو چک پڑ گئی تو نکلے گی بھی نہیں کیونکہ اس عمر میں صرف پٹاخے نکلتے ہیں یا ہڈی بھربھری ہو کر ٹوٹ جاتی ہے۔ لندن سے چہرے کی تو ڈینٹنگ ہو جاتی ہے مگر بھربھری ہڈی کی سرجری کسی آرتھوپیڈک سرجن کے بس کی بات نہیں۔ خیر تفنن برطرف… آگ تو دونوں طرف ہی لگی ہوئی تھی۔ ایک طرف کی بجھ گئی دوسری طرف کی مزید بھڑک گئی۔ عمران خان کو وقت گزارنے کیلئے نئی پریس کانفرنسوں، ٹاک شوز، انٹرویوز اور بیانات دینے کا موقع مل گیا۔ عمران خان نہ تو کوئی جاب کرتے اور نہ ہی بچارے کوئی بزنس کرتے، فیملی سٹیٹس میں خود کو اپر مڈل کلاس شو کیا ہے مگر رہتے بادشاہوں کی طرح ہیں۔ 23 سال سے کرکٹ سے ریٹائر ہیں لیکن شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی کرکٹر کا 300 کنال پر محیط گھر نہیں ہے۔ عمران خان نے جھوٹ اور مبالغے کی فیکٹریاں کھول رکھی ہیں۔ اب تو شاہ محمود قریشی بھی عمران خان کی رنگ برنگی باتوں، بچکانہ حرکتوں، احمقانہ فیصلوں سے تنگ نظر آ رہے ہیں۔ جس دن شاہ محمود قریشی نے عمران خان کو چھوڑ دیا، یہ عمران خان کے تابوت میں آخری کیل ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ ایاز صادق کو سیٹ سے ہٹا کر عمران خان نے عوام کی کون سی خدمت کی۔ پھر ضمنی الیکشن پر اربوں روپیہ بہا کر میڈیا میں بیانات انٹرویوز دیکر اور جلسے سجا کر عوام کو کیا سکھ پہنچایا۔ میٹنگز کرکے اور نعرے لگوا کر عوام کی بہبود کیلئے کیا اقدامات کئے۔ عمران خان بتائیں کہ پہلے ایم این اے بن کراپنے حلقے کے لوگوں کی بھلائی میں کون سے کام کئے؟؟؟ اب ایم این اے بن کر کون سے کارنامے سرانجام دیئے۔ خیبر پختونخواہ میں حکومت بنا کر کون سا بڑا کام کیا؟ کے پی کے کی حکومت، اس کا قومی خزانہ اور قومی وسائل عمران خان اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ہر فائدہ اپنی ذات کیلئے ہوتا ہے۔ ساری فنڈنگ وہیں سے ہوتی ہے۔ کرپشن کی سینکڑوں کہانیاں جنم لے چکی ہیں جس میں دو وزیروں کی کہانیاں سامنے آ چکی ہیں۔ دوسری طرف نیکوکار، معصوم بھولے اورشرافت کا ٹیگ لگائے میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کی مسند پر جلوہ افروز ہیں جنہوں نے فلپائن کے آنجہانی صدر مارکوس کو بھی مات دیدی ہے۔ ہر عید پر بیرون ملک چلے جاتے ہیں کہ کہیں فیصل مسجد یا بادشاہی مسجد میں کھلے عام نماز عید نہ پڑھنی پڑ جائے۔ دوسرے چھوٹے وزیراعظم میاں شہباز شریف جو وڈیو لنک میٹنگ، کانفرنس اور جلسے کرکے خود کو ٹیپو سلطان سمجھتے ہیں بلکہ یہ تو ہماری زیادتی ہے کہ ہم میاں شہباز شریف خادم اعلیٰ کو ایک لوکل لیڈر سے ملا رہے ہیں وہ تو بھٹو سے مماثل ہیں۔ انہی کی طرح تقریر کرتے ہیں، بھٹو کو تو ہم نے نہیں دیکھا لیکن بھٹو کی آجکل پیروڈی دیکھنے کو ضرور ملتی ہے۔ ویسے تو حضرت میاں شہباز شریف خود کو نیلسن منڈیلا، مہاتیر محمد، مائوزے تنگ، کمال اتاترک، ایڈلف ہٹلر ہی ظاہر کرتے ہیں اور کمال مہارت سے سب کی کاپی بھی کر لیتے ہیں۔ وہ خود کو سات لیڈروں کا نچوڑ سمجھتے ہیں اور سات زبانیں اردو، پنجابی، انگریزی، عربی، ترکی، چینی، جرمن بول کر اور سات اشعار سنا کر خود کو ادیب شاعر دانشور اور فلاسفر ثابت کرنے کی کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہے میاں شہباز شریف کا معیار تعلیم اور تعلیمی ویژن، نالج پارک کے چرچے ہیں جس میں ’’نالج‘‘ نظر نہیں آ رہی۔ سارا زور پارک پر ہے۔ جس قوم کے لیڈر ایسے ہوں اس قوم کو اپنی فاتحہ خود ہی پڑھنی پڑتی ہے۔ ایک مقروض ملک میں ہر روز ضمنی الیکشن پر اربوں روپے خرچ کرکے آخر عوام کو کیا ڈیلیور کیا جا رہا ہے۔ عوام کے نام پر عوام کی بوٹیاں چیچوڑنے والے یہ نام نہاد لیڈر خدا کیلئے کہیں سمگل کرا دیجیئے۔ انہیں بھارت، چین، سعودیہ، دبئی، امریکہ، انگلینڈ شفٹ کرا دیں۔