اسلام آباد (ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے نندی پور پاورپراجیکٹ کا ایشیائی ترقیاتی بینک، اقوام متحدہ اور نیب سے آڈٹ کروانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن نندی پور منصوبے پر جوڈیشل کمیشن بنوانا چاہتی ہے تو اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ نیپرا رپورٹ میں 70فیصد میٹرزکی خرابی کی رپورٹ غلط ہے، ہمارے 2کروڑ صارفین ہیں جن کے 3لاکھ میٹر ہیں، نیپرا نے رینڈم سروے میں 1500سے 2000میٹرز کو چیک کر کے رپورٹ دی، صارفین کو اوور بلنگ کا اعتراف کرتا ہوں، اووربلنگ پر 2آڈٹ کروائے ہیں، منظر عام پر نہیں لاسکتے کیونکہ میڈیا پر واویلا مچ جائیگا، ان کیمرہ بریفنگ کو تیار ہوں ، جب ہماری حکومت آئی تو ملتان، فیصل آباد اور کراچی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بند تھے، اب 6گھنٹے بجلی بند ہوتی ہے تو میڈیا پر واویلا مچ جاتا ہے، میڈیا نے پہلے دو روزوں میں لوڈشیڈنگ کا شور مچایا، مگر باقی 28روزوں میں کم لوڈشیڈنگ کی گئی اس کی کسی نے کوئی تعریف نہیں کی، کے لیکٹرک کے ساتھ نئی شرائط پر معاہدے کریں گے۔ وہ پیر کو سینٹ میں سینیٹر شاہی سید اور نعمان وزیر خٹک کی تحریک التواءپر ایوان کو اعتماد میں لے رہے تھے۔ ناردرن ایریا اور کے پی کے میں ہائیڈرل کے اور منصوبے شروع کریں گے۔ صوبائی حکومت کی بھی کوئی ذمہ داری بنتی ہے، وہ خود سے بھی وہاں منصوبے شروع کر سکتی ہے۔ نیپرا نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ رینڈم سروے کے تحت رپورٹ بنائی گئی۔ نیپرا نے صرف 1500سے 2000میٹر چیک کئے اور ان کی بنیاد پر اپنی رپورٹ دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس رپورٹ کو سچ بھی مان لیا جائے تو یہ ڈومیسٹک صارف کا صرف 1.4فیصد بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیپرا کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کی ریکوری صرف 20فیصلہ تک ہوئی ہے جبکہ 80فیصد ریکوری نہیں ہوئی۔ ایوان میں اس طرف کسی نے بھی نشاندہی نہیں کی۔ اکتوبر 2014 کے بعد سرکولر ڈیٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔ عمران خان نے نندی پور کا آڈٹ ایشیائی ترقیاتی بینک اور اعتزاز احسن نے نیب سے کروانے کا کہا، ہم دونوں اداروں سے آڈٹ کروانے کو تیار ہیں ۔ایوان بالا میں سینیٹرز نے 12 اکتوبر کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں غیر ملکی ہاتھ اور اس وقت کی حکومت ملوث تھی‘ میڈیا پر بعض دانشور مارشل لاءکو دعوت دیتے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ 12 اکتوبر کو مشرف اور اس کے ساتھیوں نے جو شب خون مارا اور ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں ۔ ملک کا قانون اس قدر کمزور ہے کہ آئین کو پامال کرنے اور جمہوریت پر شب خون مارنے والے کو ایک دن بھی جیل نہیں جانا پڑا اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک کی عدلیہ بھی دباﺅ کا شکار ہے۔ انہوں نے کہاکہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک انتشار کا شکار ہے۔ پارلیمنٹ کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں اور سیاستدانوں کو ناکام بنایا جارہا ہے اور سول اور ملٹری بیورو کریسی ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں جو کہ خطرناک اقدام ہے۔سینٹ او قومی اسمبلی کے ماختیارات برابر ہونا چاہئیں۔ اعظم سواتی نے کہا کہ الیکشن کمشن ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد میں قطعی طورپر ناکام ہو چکا ہے۔ اگر حکمران جماعت کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالا جائے تو لازمی طورپردیگر جماعتیں اور امیدار بھی الیکشن قوانین کی دھجیاں اڑائیں گے۔چودھری تنویر نے کہا کہ 12 اکتوبر کا دن ملک کی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ وہ ایک سیاہ دور اور قوم پر عذاب الٰہی کے مترادف تھا۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ الیکشن کمشن ایک دو ضمنی انتخابات میں ناکام رہا تو پھر 272 حلقوں میں کیسے انتخاب کرائے گا۔ الیکشن کمشن عمران کمے دھرنے سے خوفزدہ ہو گیا۔ وزیرداخلہ چودھری نثار نے کہا کہ 12 اکتوبر کو جو ہوا‘ اس کی مذمت کرتا ہوں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو قومی ایجنڈا بنانا ہوگا۔ صوبوں کے تحفظات دور کریں گے۔ مشرف ایک آمر تھا۔ آج کے آرمی چیف کی ملک بھرمیں عزت ہے۔ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ 12 اکتوبر 1999ءانتہائی منحوس دن تھا۔ ایک اتحاد بنا تھا جس نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اس اتحاد میں عمران‘ طاہرالقادری بھی شامل تھے۔ فوج اپنا کام کر رہی ہے۔ ضرب عضب جاری ہے۔ مشرف دور میں کیاکچھ نہیں ہوا۔ مشرف دور میں کوئی فوجی وردی پہن کر باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ لعنت ہے ایسے ججوں پر جنہوں نے مشرف سے حلف لیا۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا کہ 12 اکتوبر کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ مسئلہ کشمیر پر مشرف ڈیل کر چکے تھے۔ آج وہ شخص ڈیفنس میں آرام سے رہے رہے ہیں۔ کوئی سویلین ڈیل کرتا تو دوسرا ذوالفقار علی بھٹو بن جاتا۔ علاوہ ازیں سینٹ میں رینجرز کے خلاف کراچی میں اشتہارات شائع ہونے کے معاملے پر تحقیقات کیلئے سب کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔ کمیٹی میں سینیٹر شاہی سید‘ سینیٹر شبلی فراز اور سینیٹر مختار دھامرہ شامل ہیں۔ کمیٹی واقعہ میں ملزموں کی نشاندہی کرے گی۔ علاوہ ازیں سینٹ نے روزمرہ اشیائ‘ خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافے اور مانسہرہ اور ہری پورکے علاقے میں واقع تناول کی پسماندگی ختم کرنے کی غرض سے خصوصی ترقیاتی پیکیج کی قراردادیں متفقہ طورپر منظور کر لی۔ پنشن میں اضافہ کی قرارد سینیٹر سراج الحق نے پیش کی تھی۔
سینٹ