فیس بک پر ”کابل ٹیکسی“ کا صفحہ سیاست دانوں کے لیے درد سربن گیا

کابل (بی بی سی) ایک وزیر ٹیکسی کو روکتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کے دیگر 27 دوست بھی اسی ٹیکسی میں اس کے پیچھے سوار ہو کر جانا چاہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟اس لیے کہ وہ اس کے دوست ہیں اور وزیر جسے حکومت کے اتنے بڑے عہدے پر فائز کیا گیا ہے تو دوست سوچتے ہیں کہ اب جہاں وزیر موصوف جاتے ہیں وہاں انہیں بھی جانے کا حق حاصل ہے۔فیس بک پر ’ کابل ٹیکسی‘ نام کے صفحے پر آج کل جو مزاحیہ کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔مقصد یہی ہے کہ اس پر آپ ان افراد پر بھی تنقید کر سکتے ہیں جن پر آپ عموما میڈیا میں نکتہ چینی نہیں کر سکتے۔
انہی میں سے ایک کہانی کا یہی لب لباب ہے۔افغانستان میں صحافی ہوں یا سیاست دان یہ صفحہ سبھی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اگرچہ اس صفحے کو جب فیس بک سے ہٹا دیا گیا تو تقریباً ایک ماہ تک اس پر کچھ بھی نہیں ہوا لیکن لوگوں نے اسی طرز کے کئی دیگر صفحے تیار کر لیے اور اب یہ صفحہ دوبارہ آن لائن دستیاب ہے۔کابل ٹیکسی نے اس برس کے اوائل میں اپنی سروسز شروع کی تھیں اور فیس بک پر اسے 60 ہزار سے زیادہ بار لائیک کیا جاچکا ہے۔ یہ صفحہ افسانوی کہانیوں (جس کا محور سیاست ہے) پر مبنی ہے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور کابل کی گلیوں میں ٹیکسی چلاتا ہے اور اکثر باآثر شخصیات کو اپنی گاڑی میں لاتا لے جاتا ہے اور ایسی ہی با اثر شخضیات سے وہ جو باتیں سنا ہے انہیں کو وہ شائع کر دیتا ہے۔کابل میں صحافی اور ٹی وی پیش کار عبداللہ خینجانی کہتے ہیں : ’فیس بک پر کابل ٹیکسی اپنی نوعیت کا افغانستان کا پہلا مزاحیہ صفحہ ہے۔ مقصد یہی ہے کہ اس پر آپ ان افراد پر بھی تنقید کر سکتے ہیں جن پر آپ عموما میڈیا میں نکتہ چینی نہیں کر سکتے۔‘اس صفحے پر ملک کے سبھی سیاست دانوں، بشمول صدر اشرف غنی اور ان کے ساتھی عبداللہ عبداللہ، تک کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ لیکن ابھی تک اس شخص کی شناخت نہیں ہوسکی ہے جو اس صفحے کو چلاتا ہے۔ اگرچہ واشنگٹن پوسٹ نے یہ خبر دی تھی کہ 31 برس کے اس شخص کا ممکنہ طور پر تعلق اقلیتی برادی ہزارہ سے ہے۔ لیکن اس سے متعلق بی بی سی کے سوال کرنے کے باوجود بھی کوئی جواب نہیں ملا۔یہ صفحہ افغان حکام کے لیے درد سر بنا ہوا ہے اور فیس بک سے ہٹانے سے پہلے اس سلسلے میں کئی صحافیوں سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی لیکن مقدمہ کسی کے بھی خلاف درج نہیں کیا گیا۔
کابل ٹیکسی

ای پیپر دی نیشن