کراچی (کامرس رپورٹر) بنک دولت پاکستان نے پاکستان کی معیشت کی کیفیت پر اپنی سالانہ رپورٹ برائے مالی سال 2016-17ء جمعرات کو جاری کردی۔ سی پیک نے معیشت کو متحرک کر دیا‘ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں زرمبادلہ ذخائر 9کروڑ ڈالر کم ہوئے۔ کامرس رپورٹر کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے مالی سال 17ء میں پاکستان کی معیشت میں توسیع ہوتی رہی اور حقیقی جی ڈی پی 5.3 فیصد بڑھی جو پچھلے دس برسوں کی بلند ترین نمو ہے۔ شعبہ زراعت کی تیزی سے بحالی، خدمات کے شعبے میں بھرپور قدر اضافی اور اشیا سازی میں مسلسل بہتری نے اس وسیع البنیاد نمو کو ممکن بنانے میں کردار ادا کیا۔ سرمایہ کاری میں معتدل اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے معاشی سرگرمی کو سازگار زرعی پالیسی اور اس کے نتیجے میں نجی شعبے کے قرضوں خصوصا معینہ سرمایہ کاری کے قرضوں میں اضافے، زراعت، برآمدی صنعتوں اور سرمایہ کاری کے لئے ٹیکس ترغیبات، ترقیاتی اخراجات کے مسلسل بڑھنے اور سی پیک کے تحت انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں پر جاری کام سے سب سے زیادہ تحریک ملی۔ ملکی طلب میں اضافے کے ساتھ درآمدات کی رفتار بھی بڑھ گئی یہ اور اس کے ساتھ برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی مالی سال 17ء میں 12.1 ارب ڈالر کے جاری حسابات کے خسارے پر منتج ہوئی جبکہ مالی سال 16ء میں یہ خسارہ 4.6 ارب ڈالر تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سرکاری اور نجی رقوم کی بلند آمد سے اس جاری کھاتے کے خسارے کو جزوی طور پر پورا کرنے میں مدد ملی۔ اگرچہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس ترغیبات اور ترقیاتی اخراجات میں مسلسل اضافے سے اقتصادی سرگرمی کو مدد ملی تاہم ان کی وجہ سے مالی سال 17ء میں مالیاتی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کا5.8 فیصد ہوگیا جبکہ مالی سال 16ء میں یہ 4.6 فیصد تھا۔ اسی دوران اگرچہ مہنگائی میں اضافے کا رجحان رہا، تاہم یہ اب بھی قابو میں تھی اور مالی سال 17ء میں مسلسل تیسرے سال ہدف سے کم رہی۔ مالی سال 17ء کے دوران اوسط مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) بڑھ کر 4.2 فیصد ہوگئی جبکہ مالی سال 16ء میں کم ہو کر 2.9 فیصد ہو گئی تھی۔ رپورٹ میں ان اہم مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جنہیں مہنگائی کو کم اورآگے چل کر مستحکم رکھتے ہوئے معیشت میں ترقی کی موجودہ رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے حل کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر اس میں غیر ضروری درآمدات کو محدود کرنے اور برآمدی اساس کی توسیع پر زور دیا گیا ہے تا کہ جاری کھاتے کے خسارے کو قابل انتظام سطح تک لے جایا جا سکے۔ مزید برآں انفراسٹرکچر اور سماجی ترقی کے منصوبوں پر اخراجات کی موجودہ رفتار کو برقرار رکھنے کے لئے محصولات کی وصولی کی نمو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ وفاقی سطح پر شروع کی گئی اصلاحات میں وسعت لائی جائے اور صوبے اپنی ٹیکس وصولیوں کی کوششوں میں اضافہ کریں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرمایہ کاری کی بحالی کو مستحکم کرنے کے لئے کاروباری حالات کو بہتر بنانا ہو گا جس سے نمو کو صرف پر مبنی رجحان کے بجائے سرمایہ کاری و برآمدی نوعیت کی نمو پر منتقل کرنے میں مدد ملے گی۔ رپورٹ میں ملک میں پانی کی رسد میں مسائل اور مسلسل بڑھتی ہوئی طلب کے تناظر میں پانی کے بڑھتے ہوئے دباؤ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جس کی وجہ آبادی میں اضافہ، تیزی سے بڑھتی ہوئی شہر نشینی اور پانی کا بہت زیادہ ضیاع ہے۔ مزید برآں اس بابت بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ آلودگی اور کھاد اور کیڑے مار ادویات کے بہت زیادہ استعمال کے باعث سطح پر اور زیرِ زمین آبی معیار بھی ابتری کا شکار ہے۔ رپورٹ میں آبی وسائل کے انتظام میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے جس کے لئے ضیاع میں کمی اور پانی کے تحفظ کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ مستقبل میں انسانی اور کمرشل سطح پر استعمال کیلئے پانی کی وافر فراہمی ہو سکے۔