گلگت بلتستان جانے کیلئے مئی سے اگست کے دوران سفر بہت سودمند رہتا ہے کیونکہ راستے کھل جاتے ہیں اور موسم نہایت خوشگوار ہوتا ہے۔ اس موسم میں آپ کو بھاری جیکٹس کی ضرورت نہیں پڑتی البتہ شام کو سوئٹر پہن لینا چاہئے۔ ہنزہ پہنچنے کے دو راستے ہیں ایک یہ کہ کاغان ویلی سے ہوتے ہوئے یابوسریاس جایا جائے اور وہاں سے چلاس پہنچا جائے دوسرا راستہ شاہراہ ریشم کا ہے جس کیلئے بشام اور کوہستان کے علاقوں داسو اور ہٹن سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ دوسرا راستہ بہت طویل ہے اور خطرناک بھی جہاں داسو سے چلاس تک شاہراہ ریشم کی حالت بھی خراب رہتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہنزہ کسی ٹورنگ کمپنی کے ساتھ آیا جائے کیونکہ محض بیس ہزار میں آپ ساری ہنزہ وادی کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ بس میں قیام و طعام دونوں شامل ہیں جبکہ ذاتی گاڑی میں یہ سفر خاصا مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ چلاس ایک چھوٹا سا شہر ہے اور یہاں قیام کیلئے شنگریلا ہی سب سے بہترین ہوٹل ہے جو سندھ دریا کے کنارے واقع ہے۔ کریم آباد میں رہائش کیلئے تین ہزار یومیہ میں آپ آرام دہ رہائش کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ کریم آباد میں ”بلتت فورٹ“ نہایت دلفریت مقام ہے، یہاں ایک دلکش باغیچہ بھی ہے جبکہ بلتت فورٹ کریم آباد شہر میں بلندی پر واقع ہے۔ بلتت فورٹ تبت لہاسا پیلس اور .... کے قلعہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہاں سے راکاپوشی، گولڈن پیک، لیلیٰ پیک اور التر گلیشیر کا بھی دیدار کیا جاسکتا ہے۔ قلعے کی چھت پر بنی بالکونی اپنی مثال آپ ہے۔ خنجراب پاس کے راستے میں ”گلگت“ نامی ایک دلکش قصبہ آتا ہے جو ہنزہ کی دیہی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں سے تین گھنٹے دور سوست کا قصبہ ہے جو پاکستان کا آخری قصبہ ہے جس کے بعد چین تک کوئی آبادی نہیں ہے، یہاں سے سفر قدرے بلند ہے۔ ”خنجراب بارڈر“ ایک برفانی سرحد ہے جہاں باوجود دھوپ کے شدید سردی ہوتی ہے لہٰذا یہاں اپنے ساتھ گرم کپڑے رکھنا بہت ضروری ہے مگر یہاں سرحد پر واہگہ بارڈر والی کشیدگی کی جگہ دوستی کی گرمجوشی محسوس ہوتی ہے۔
بسمہ افضل
لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی لاہور