مورخین و مفکرین کا انتباہ

Oct 13, 2018

قیوم نظامی

عالمی شہرت یافتہ مورخین اور مفکرین مستند شواہد اور ٹھوس اعداد و شمار کی بنیاد پر پاکستان کی مقتدر اشرافیہ ( جرنیل، سیاستدان، جج، بیوروکریٹس) کو آنے والے چیلنجوں کے بارے میں انتباہ کرتے رہتے ہیں مگر اشرافیہ اس انتباہ پر سنجیدگی سے غور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ کو پاکستان کے لانگ ٹرم مفادات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ صرف ’’ڈنگ ٹپائو پالیسی‘‘ پر ہی گامزن رہتی ہے۔۔ قومی مسائل کے بارے میں اشرافیہ کی غفلت اور بے حسی تشویشناک ہوتی جارہی ہے جس کا نوٹس باشعور محب وطن عوام کو لینا چاہیئے۔ عالمی شہرت یافتہ مفکرین اور مصنفین احمد فاروقی، تسنیم احمد صدیقی، ملیحہ لودھی، آئن ٹالبوٹ نے اپنی تحقیقی کتب:
"Rethinking the National Security of Pakistan" "Towards Good Governance" "Pakistan Beyond crisis state" "Pakistan new History"
میں انتباہ کیا ہے کہ پاکستان کو آبادی کے ایٹم بم، پانی، خوراک اور انرجی کی شدید قلت سے بچنے کے لیے ٹھوس ہنگامی اور انقلابی ادارہ جاتی، معاشی، سیاسی اور سماجی اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔ پاکستان کا موجودہ کلچر اور مائنڈ سیٹ ریاست کو برباد کرسکتا ہے۔ پاکستان کی آبادی دو دہائیوں کے بعد 220 ملین تک پہنچ جائے گی جس کے لیے پانی، خوراک اور بجلی فراہم کرنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں مزید تاخیر ریاست کی آزادی اور سلامتی کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان کے عوام گواہ ہیں کہ ہماری حکمران اشرافیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ ان چیلنجوں کے بارے میں غور و فکر ہی نہیں کررہی۔یاد رہے کہ ان مفکرین کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا ان کی رائے کو پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد میں ہی سمجھا جانا چاہیئے۔
مفکرین کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں ایسے مواقع آتے رہے کہ سیاسی اداروں کو مستحکم بنایا جاتا، معاشی اور سماجی تفاوت کو ختم کیا جاتا، ریاستی اداروں کو منظم کرکے گڈ گورنینس کو یقینی بنایا جاتا مگر یہ مواقع گنوائے جاتے رہے۔ کئی بار مدرسہ اصلاحات تیار کی گئیں مگر ان پر عملدرآمد نہ کیا گیا بلکہ حکمران اشرافیہ پاکستان کے قومی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے اقتدار کی مصلحتوں کے پیش نظر مدرسوں کے علماء سے بلیک میل ہوتی رہی اور یہ مسئلہ آج بھی جوں کا توں ہے۔ کسی حکمران نے یہ نہ سوچا کہ جب مدرسوں کے طالبعلم فرقہ واریت اور انتہاء پسندی کی بنیاد پر تعلیم حاصل کریں گے تو وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد کس نوعیت کا کردار ادا کریں گے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت ہے جن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے اور ہنر مند بنا کر ہی پاکستان کو پرامن، مستحکم اور خوشحال ملک بنایا جاسکتا ہے۔ مفکرین کے مطابق قومی یکجہتی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ شراکتی معاشی گروتھ کو معاشی پالیسی کا بنیادی اُصول بنایا جائے۔ اگر گروتھ پر اشرافیہ کی بالادستی قائم رہی تو ریاست میں تفریق، محرومی اور انتہا پسندی پیدا ہوگی۔ افسوس حکمران اشرافیہ نے اس صائب مشورے پر بھی آج تک عمل نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں ایک جانب غربت کا سمندر ہے اور جبکہ دوسری جانب امارت کا جزیرہ ہے۔ جو تشدد نفرت اور کشیدگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ پاکستان میں افرادی کی قوت کی کمی نہیں ہے جو ترقی میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم، غیر ممالک پر غیر معمولی انحصار اور سیاسی عدم استحکام سے ملکی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کی بناء پر ریاست پر دفاعی بوجھ بڑھا ہے اور تعلیم و صحت پر بہت کم مالی اخراجات کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے بنیادی اہمیت کے دونوں شعبے متاثر ہوئے ہیں۔ مفکرین کے مطابق سیاسی جمہوری انتخابی نظام، پولیس، بیوروکریسی اور فوج میں بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں نہیں کی گئیں جن کی وجہ سے ریاست کی فعالیت متاثر ہوئی اور وہ جمود کا شکار ہوکر رہ گئی۔
مفکرین اور مؤرخ متفق ہیں کہ فوجی مداخلتوں نے سیاسی جمہوری نظام کو کمزور کیا اور سیاسی جماعتیں بلوغت کی منزل پر نہ پہنچ سکیں۔ جنوبی ایشیا کے مجموعی استحکام کے لیے لازم ہے کہ اس خطے کی دو اہم ایٹمی ریاستیں بھارت اور پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہوں۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ایک ٹاسک فورس قائم کی جس نے رپورٹ دی ’’پاکستان کے مالیاتی محاصل کا بحران سنگین ہے۔ ٹیکس سے وصول ہونے والا ریونیو کم ہے جن سے قرضوں کی قسط ادا نہیں کی جاسکتی۔ اگر ٹیکسوں کی آمدنی میں قابل ذکر اضافہ نہ کیا گیا تو ریاست کی گورنینس مشکل ہوجائے گی۔ پبلک سروسز کی ڈیلیوری ممکن نہیں ہوگی۔ افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ ایف بی آر میں اصلاحات ریاست کی پہلی ترجیح ہونی چاہیئے‘‘۔ 2002کے انتخابات کے بعد سیاسی مصلحتوں نے ٹاسک فورس کی سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ ملیحہ لودھی نے چند سال پہلے اپنی کتاب میں انتباہ کیا تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات اُٹھائے جائیں جن کے نتیجے میں ریاست لوگوں کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرے اور صرف اشرافیہ کی خادم بن کر نہ رہ جائے۔ سیاسی معاشی نظاموں کی اصلاح، گورنینس کو مثالی بنانے، اندرونی استحکام کے سلسلے میں بیک وقت اقدامات اُٹھائے جائیں۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے تاکہ جمہوری نظام مستحکم ہوسکے۔ امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں اور غریبوں پر خرچ کیے جائیں۔ ہیومن ریسورس پر خصوصی توجہ دی جائے۔[Pakistan Beyond the crisis state P 349] گزشتہ حکومت نے ملیحہ لودھی کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا ترجمان اور سفیر تو مقرر کردیا مگر اس کی سفارشات پر عمل نہ کیا۔
محسن حمید اپنے آرٹیکل "Why Pakistan will Servive" میں لکھتے ہیں کہ اگر ہم شہری کی حیثیت سے ذمے داری کا ثبوت دیں۔ حقوق کے ساتھ فرائض بھی ادا کریں۔ حکومتوں پر بوجھ نہیں بلکہ ان کے معاون بنیں۔ اپنے حصے کا پورا ٹیکس دیں۔ ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔ نفرتوں کی بجائے برداشت کا کلچر پیدا کریں۔ پاکستانی ہونے پر فخر کریں تو پاکستان قیامت تک قائم و دائم رہے گا۔ افسوس یہ ہے کہ پاکستان کے افراد بھی اپنی سوچوں اور رویوں کو تبدیل کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ پاکستان کی نئی حکومت ریاستی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے سلسلے میں پر عزم ہے مگر اسے ہمالیہ جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ریاست کے پاس بہت تھوڑا وقت ہے۔ روایت سے ہٹ کر سنجیدہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ ریاست کو جو مہلک بیماری لاحق ہے وہ سرجری کے بغیر ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ مورخین، مفکرین اور ٹیکنو کریٹس کی سفارشات کتب اور فائلوں میں موجود ہیں۔ ان کی روشنی میں نیا چارٹر تیار کیا جانا چاہیئے جس کی منظوری پارلیمنٹ سے لے کر اسے آئین کا حصہ بنایا جائے اور پوری قوم متفق ہوکر آئندہ دس سالوں میں اس پر عملدرآمد یقینی بنائے۔
وزیراعظم پاکستان کے سٹیک ہولڈرز کا خصوصی اجلاس (گول میز کانفرنس) بلائیں جس میں پارلیمانی جماعتوں کے نمائندے ، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکریٹری پاک فوج اور عدلیہ کے نمائندے شامل ہوں جو اتفاق رائے سے ’’پاکستان چارٹر‘‘ کی منظوری دیں۔ اس قومی چارٹر پر ہنگامی بنیادوں پر عمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں اگر ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہو تو اس سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ پاکستان کئی بار محاذ آرائی کی بھاری قیمت ادا کرچکا ہے۔ اب محاذ آرائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آبادی میں ہوشربا اضافے، پانی کی قلت،میگا کرپشن، جہالت اور بیماری نے قومی سلامتی اور آزادی کو دائو پر لگارکھا ہے۔ اس سنگین اور مہلک چیلنج کا مقابلہ پوری قوم متحد ہوکر ہی کرسکتی ہے۔

مزیدخبریں