عوام منرل واٹر پینا چھوڑ دیں ملک کو معشوقہ سمجھیں، سب ٹھیک ہو جائے گا: سپریم کورٹ
چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے منرل واٹر کیس میں سماعت کے دوران معروف قانون دان اعتزاز احسن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام منرل واٹر پینا چھوڑ کر نلکوں کا پانی پئیں (جیسا کہ) دیہات میں آج بھی نلکوں کا پانی پیا جاتا ہے، یہ نخرے شہریوں کے ہیں۔ آپ نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے عشق کا تجربہ نہیں، ممکن ہے آپ کو ہو اگر ملک کو معشوقہ سمجھیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ محترم چیف جسٹس نے بالکل درست فرمایا کہ اگر ملک سے اس طرح محبت کی جائے، جس طرح کرنے کا حق ہے تو سب ٹھیک ہو جائے۔ دراصل منرل واٹر کا ’’سودا‘‘ بیچنے والوں نے بڑی چالاکی سے لوگوں کو نلکوں کے پانی سے متنفر کیا اور ڈرایا بھی کہ دنیا بھر کی خوفناک بیماریوں کا باعث ہی یہ پانی ہے۔ ساتھ ہی ’منرل واٹر‘ کے فوائد و خصائص کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ آب زمزم اور آب حیات پیچھے رہ گئے۔ رہا عام آدمی تو اُس نے ملک اور اُس کی مٹی سے ٹوٹ کر پیار کیا ہے، اُس نے ہمیشہ ’’میرے وطن! پیارے وطن‘‘ کے گیت گائے ہیں۔ بیڑا اُنہوں نے غرق کیا، جنہوں نے ارضِ پاک کو چراگاہ سمجھا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے پانی بیچ کر ارضِ وطن کو خشک اور بنجر بنانے کے ہُنر آزمائے۔ کاش! قومی خزانے کو چچوڑتے وقت خدا کا خوف ان کے آڑے آتا یا مرنا یاد ہوتا تو آج محترم چیف جسٹس کو نہ کڑھنا پڑتا…؎
زندگی تو بے وفا ہے اک دن ٹھکرائے گی
موت محبوبہ ہے میری‘ ساتھ لے کر جائے گی
بابا فریدؒ گنج شکر نے اپنے ایک اشلوک میںبھی اس حقیقت کو بڑے خوبصورت الفاظ میں بیان فرمایا ہے…؎
فریدا خاک نہ نندیے‘ خاکو جیڈ نہ کو
جیوندیاں پیراں تھلے، موئیاں اوپر ہو
٭٭٭٭٭
بھارتی فلموں کی نمائش پابندی کیس : ہائی کورٹ نے وفاق کو جواب کے لیے /16 اکتوبر تک مہلت دے دی
آج سے ساٹھ ستر سال پہلے، پاکستان اور بھارت میں بننے والی فلمیں ہدایت کاری کہانی، مکالمے، شاعری، موسیقی اور گلوکاری کا حسین امتزاج ہوتی تھیں۔ شائستگی اور تہذیب اس درجے کی ہوتی تھی کہ بہو بیٹیوں کے ہمراہ فلم دیکھنے میں کوئی قباحت سمجھی جاتی تھی اور نہ ہی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ پھر ساٹھ کے عشرے میں، پاکستان کی فلمی صنعت روبہ زوال ہوئی تو بھارتی فلموں کی مانگ بڑھی لیکن جلد ہی بھارت کی فلم انڈسٹری میں فحاشی و عریانی داخل ہونا شروع ہوئی ، ستر کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے ، بے حیائی کی اس روش نے سیلاب کی صورت اختیار کر لی، ستم بالائے ستم، انڈین فلموںپرہندو تہذیب اور مورتی پوجا اور مسلمانوں کی دلآزاری پر مبنی مواد نے غلبہ پا لیا چنانچہ پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا تھا‘ کے عوام کو ہندو ثقافت کی یلغار سے بچانے کے لئے بھارتی فلموں پر پابندی لگانی پڑی۔ اسی دوران افق پر ٹی وی چینلز کا ظہور ہوا اور ڈش انٹینا کی جگہ کیبل آ گئی تو بھارتی ڈراموں کے باعث یہ لعنت گھروں میں بھی داخل ہو گئی، جس خرابی کو زمین سے روکنے کی کوشش کی گئی، وہ فضا سے نازل ہو گئی۔ ایک زمانہ تھا کہ ہیرو ہیروئن ایک دوسرے سے دوچار گز ہٹ کر گانا گا رہے ہوتے تھے۔ آج یہ عالم ہے کہ ہیرو ہیروئن ، من تو شدی تو من شدم کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ گیت، رقص ، شاعری ختم ہو گئی ہے۔رقص کے نام پر 60,50 نیم عریاں لڑکے لڑکیاں، ہیرو ہیروئن کی قیادت میں ’’فن‘‘ کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔کیا ہم اپنے عوام کی تفریح کے لئے ایسے ’’شاہکاروں‘‘ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہمارے چینلز پر بڑے اچھے اچھے ڈرامے پیش کئے جا رہے ہیں۔ تھوڑی بہت جو فلمیں بن رہی ہیں ، اُن میں بھی بڑی حد تک شرم و حیا کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ گند اور غلاظت سے بچنا چاہئے۔!
٭٭٭٭
پولیس نے منشا بم اور بیٹوں کی گرفتاری کے لئے حساس اداروں سے مدد مانگ لی
نہ جانے کہاں گئی، وہ پولیس جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اُڑتی چڑیا کے پَر گن لیتی ہے،یہاں تک کہ پاتال کی خبر بھی رکھتی ہے۔ بدنام زمانہ قبضہ مافیا منشا بم اینڈ سنز کئی دن سے روپوش ہے۔ چھاپوں پہ چھاپے مارے جا رہے ہیں لیکن پولیس کو کوئی کامیابی نہیں ہو رہی، اُنہیں آسمان کھا گیا ہے یا زمین نگل گئی ہے، کچھ خبر نہیں۔ پولیس نے تھک ہار کر حساس اداروں سے مدد مانگ لی ہے۔ بہتر ہوتا کہ بم ڈسپوزل سکواڈ کو بھی ساتھ لے لیا جاتا۔ اگر کسی موڑ پر ’’بم‘‘ ہتھے چڑھ ہی جائے تو اسے ’’ناکارہ‘‘ بنانے کیلئے ایسے لوگ ہی جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ کام کر گزریں۔ جن مجرموں کی گرفتاری کے لئے دبائو ہو یا انعام مقرر ہو تو ’’پولیس مقابلہ‘‘ عام روایت ہے لیکن منشا بم اینڈ سنز کا کیس مختلف ہے، انہیں زندہ ہی گرفتار کرنا ہو گا۔ مشورے اوروہ بھی مفت میں دینے والوں کی کمی نہیں، مثلاً ملزم یا مجرم فرار ہو جائے اور نہ پکڑا جا رہا ہو، تو اس کے گھر والوں کو پکڑ کر تھانے میں لا بٹھایاجاتا ہے۔ عموماً یہ نسخہ کامیاب رہتا ہے، ملزم یا مجرم، خواہی نخواہی پیش ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن کچھ مصلحتیں بھی ہوتی ہیں، ہر جگہ یہ نسخہ نہیں آزمایا جا سکتا۔
٭٭٭٭
کلاشنکوف بنانے والے کی پشیمانی!
6 جولائی 1947ء کو دنیا کی مہلک ترین رائفل AK-47 معرض وجود میں آئی جو اپنے اصلی نام کی بجائے اپنے خالق میخائل کلاشنکوف کے نام پر کلاشنکوف مشہور ہوئی۔ اس وقت دنیا بھر میں 20 کروڑ سے زائد کلاشنکوفیں 106 ملکوں کی افواج اور دہشت گردوں کے زیراستعمال ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس ہتھیار نے جتنے انسان ہلاک کئے ہیں اور کسی ہتھیار حتیٰ کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر پھینکے جانے والے ایٹم بموں نے بھی نہیں کئے۔ کلاشنکوف افواج سے زیادہ گوریلوں‘ دہشتگردوں اور باغیوں میں مقبول ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ دو لاکھ افراد کلاشنکوف کے لگے زخموں کی تاب نہ لا کر راہی ملک عدم ہو جاتے ہیں۔ لطف یہ ہے کہ اتنا مہلک ہتھیار بنانے والے میخائل کلاشنکوف کو سابق سوویت یونین اور اب روس میں ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے جبکہ میخائل کلاشنکوف نے جب اپنی ’’ایجاد‘‘ کی ہلاکت آفرینی دیکھی تو وہ اتنا پچھتایا کہ اس نے مئی 2012ء میں رشین آرتھوڈاکس چرچ کے سربراہ کو لکھا ’’میں ناقابل برداشت روحانی کرب میں مبتلا ہوں۔ میرا ضمیر بار بار پوچھتا ہے کہ بے شمار انسانوں کی جان لینے والی رائفل بنا کر بھی کیا میں واقعی مسیحی اور آرتھو ڈاکس کا سچا پیروکار کہلانے کا مستحق ہوں۔ کیا میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت کے الزام سے بری ہوں؟‘‘ شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے والے امریکی پائلٹ نے بھی ضمیر کی ملامت پر خودکشی کر لی تھی۔ میخائل کلاشنکوف اور امریکی پائلٹ دونوں مسیحی تھے مگر ان کے ضمیر زندہ تھے۔ مگر افسوس کہ ہمارے مجاہدین (دہشت گردوں) نے اس آئینے میں کبھی اپنا چہرہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔
٭٭٭٭٭