اسلام آباد (عترت جعفری) آئی ایم ایف نے پاکستان سے نام لے کر سی پیک کے تحت قرضوں کی تفصیلات طلب نہیں کیں بلکہ یہ کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کو یہ جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی ملک کے ذمہ واجب الادا قرضوں کا حجم کتنا ہے اور اس کی قرض کا بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا م¶قف رہا ہے کہ سی پیک کے تحت منصوبوں کے لئے چینی امداد کا بیشتر حصہ سرمایہ کاری کے زمرے میں آتا ہے اور اس میں ’قرضے‘ کا تناسب کم ہے۔ عالمی بینک کی ایم ڈی کرسٹینا لاگارڑے نے جب بالی میں پریس کانفرنس کی تھی تو ان سے پاکستان کی طرف سے پیکج کی درخواست کے بارے میں سوال ہوا جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کسی بھی خاص ملک کے بارے میں ہمیں یہ شفاف انداز میں معلوم ہو کہ اس کے ذمہ کتنے قرضے ہیں۔ ان قرضوں کی نوعیت کیا ہے اور اس کی شرائط کیا ہیں۔ آئی ایم ایف کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ قرضوں کی ہیئت کیا ہے اس میں ”ساورن“ اور سرکاری کاروباری اداروں کے قرضے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جب قرضہ پروگرام پر بات ہو تو ہم کسی ملک کی طرف سے قرضوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت کا درست طور پر تعین کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں کی شفافیت اور جانچ کا اصول صرف پاکستان پر لاگو نہیں ہوتا۔ یہ تمام ملکوں کے لئے یکساں ہے۔ یہ قرضہ برداشت کرنے کی صلاحیت جانچنے کے عمل کا حصہ ہے اور اس بات کا تعلق آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظور کردہ گورنس کو کرپشن پراجیکٹ کا بھی جزو ہے جس پر اب عمل شروع ہو چکا ہے۔ ایم ڈی آئی ایم ایف کے بیان سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ عالمی ادارہ چینی قرضے کی تفصیلات کا خواہاں ہے۔
قرضے/ تفصیلات