اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی تحریک انصاف کے لائرز فورم میں شرکت اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال پر باضابطہ ازنوٹس لے کر جواب طلب کر لیا۔ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے سے متعلق 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ بھی جاری کر دیا ہے جس میں عدالت نے سوال اٹھائے ہیں کہ بتایا جائے کیا وزیراعظم کا پبلک آفس سیاسی سرگرمی کیلئے استعمال ہوسکتا ہے؟ وزیراعظم بتائیں سرکاری عمارت کنوشن سنٹر کو نجی تقریب کیلئے کیوں استعمال کیا گیا؟ تحریری حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ نجی تقاریب کا وزیراعظم کے سرکاری اقدامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے پیمرا سے کنونشن سنٹر میں ہونے والی تقریب کی ریکارڈنگ بھی طلب کر لی ہیں اورکہا ہے کہ آگاہ کیا جائے تقریب میں کس نے کیا خطاب کیا اور کتنی بار ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی۔ سپریم کورٹ میں ایک نجی جائیداد کی اراضی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربرا ہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا وزیراعظم کو رتبہ بہت بڑا ہے ۔وزیراعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کر رہے ہیں؟ وزیراعظم ملک کے ہر فرد کا وزیراعظم ہے یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے، بظاہر کنونشن سینٹر میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں شرکت کی۔ وزیراعظم کی کسی خاص گروپ کے ساتھ لائن نہیں ہوسکتی۔ وزیراعظم نے وکلاء کی تقریب میں شرکت کرکے کسی ایک گروپ کی حمایت کی۔ انچارج کنونشن سینٹر بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گئے؟ وزیراعظم نے نجی حیثیت میں کنونشن سینٹر کا استعمال کیا۔ کنونشن سینٹر کسی کی ذاتی جائیداد نہیں، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے موقف اپنایا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک ونگ ہے، آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا یہ تقریب کسی پرائیویٹ ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی، تقریب کیلئے ٹیکس پئیر کے ریونیو کا استعمال کیا گیا۔ وزیراعظم ملک کے وزیراعظم ہیں کسی ایک جماعت کے نہیں۔ عدالت نے زیر سماعت مقدمے کے ایک فریق کے وکیل ایڈووکیٹ احمد اویس جو کہ اب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بن چکے ہیں کہ پیش نہ ہونے پر بھی نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی اپنی ذمہ داریاں ہیں، ایڈووکیٹ جنرل کنونشن سینٹرمیں ہونے والے سیاسی اجتماع میں بیٹھے رہے تاہم عدالت پیش نہیں ہوئے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ایسی سرگرمیوں سے شریک ہوئے جن کا اس سے تعلق نہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بننے کے بعد وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں؟، جسٹس قاضی فائز نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کا جج وکلاء پینل کی تقریب ہولڈ کراسکتا ہے۔ کیا آپ کی جو مرضی ہے کریں؟ کیا وزیراعظم نے یہ اقدام کرکے درست کیا؟ آپ صوبے کے پرنسپل لاء آفیسر ہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا آپ شاید اس لئے بات نہیں کر رہے کہ شاید آپ کی نوکری چلی جائے۔ عدالت کو بتائیں کہ کیا وزیراعظم کا اقدام غلط تھا یا درست؟ سوال کا جواب دیں کیا یہ مشکل سوال ہے؟ عدالتی ریمارکس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا ایک وجہ سے جواب دینے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوں، میری تقرری سیاسی ہے نہ ہی کسی تقریب میں شریک ہوا ہوں جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا قرآن کہتا ہے گواہی والدین کیخلاف بھی دینی پڑے تو دیں۔ عدالت کے طلب کرنے پرصدر سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سیکرٹری سپریم کورٹ بار رفاقت شاہ پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ وکلاء کے مخصوص گروپ کی تقریب میں احمد اویس شریک ہوئے، وزیراعظم نے تقریب میں شرکت کرکے وکلاء گروپ کو سپورٹ کیا، عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، انچارج کنونشن سینٹر اور متعلقہ وزارتوں سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹسز جاری کرتے ہوئے مزید سماعت کیلئے بنچ تشکیل دینے کیلئے عدالتی حکم نامہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔ نوٹس دو فریقین کی جائیداد کے کیس میں جاری کیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے بینچ تشکیل دینے اور سماعت کیلئے مقرر کئے جانے کے بعد مزید سماعت ہو گی۔