لندن سے تحریک چلانا مشکل ، مذہب کارڈ کا استعمال خطرناک
پیر فاروق بہاؤالحق شاہ
2018 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے اپوزیشن کئی مہینوں سے اپنی اپنی سطح پر کوششوں میں مصروف ہے۔لیکن ابھی تک ان کی کوشش، ثمر آور ثابت ہونے کی طرف نہیں آ رہی۔ماہ گذشتہ میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس نے سیاسی درجہ حرارت کو ایک حد تک بڑھایا۔مسلم لیگی قائد میاں محمد نواز شریف نے اپنی تقریر کے ذریعے ایک ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کی۔ملک کے طول و عرض اور ہر طرح کے سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں یہ تقریر زیر بحث رہی۔آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کی تقریر کے بعد پے در پے دو مزید تقاریر نے سیاسی ماحول کا درجہ حرارت مزید بڑھا دیا۔آل پارٹیز کانفرنس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل حکومت مخالف اتحاد تشکیل پا چکا ہے جو ملک بھر میں جلسے جلوسوں کی تیاری میں مصروف ہے۔حزب اختلاف کی 11 جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ نواز ،پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے علاوہ کئی دیگر حکومت مخالف مذہبی، سیکولر، قوم پرست ،سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔اس اتحاد کا نام پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ رکھا گیا جس کو پی ڈی ایم کا مختصر نام دیا گیا ہے۔حکومت مخالف اس اتحاد میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پیش پیش ہیں۔جب کہ جمعیت علمائے اسلام ف کو اس احتجاجی تحریک کا ایک اہم حصہ سمجھا جاسکتا ہے۔اس اتحاد کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ تینوں جماعتیں گزشتہ ادوار میں ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے بلکہ پارلیمان میں بھی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی جوڑ توڑ کرنے میں مصروف رہی ہیں۔ماضی قریب میں اس کی مثال 2018 میں سینیٹ چیئرمین کا انتخاب تھا۔جب مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا ۔ پھر وقت کا پہیہ ایسا گھوما اگلے ہی سال جب پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ہی مدد سے منتخب ہونے والے چیئرمین سینیٹ کے خلاف متحدہ حزب اختلاف سے ملکر عدم اعتماد کی تحریک لائی لیکن اکثریت رکھنے کے باوجودن لیگ سینٹ کا چیئرمین ہٹانے میں ناکام ہوئی ۔گویان لیگ کے بعض سینٹر نے اپنی جماعت کے خلاف ووٹ دے دیا۔ مولانا فضل الرحمٰن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کاتیسرااہم کردارہیں،جن کو حیرت انگیز طور پر پی ڈی ایم کی سربراہی دی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو پی ڈی ایم کی سربراہی نواز شریف کے خصوصی اصرار پر دی گئی۔جب کہ مولانا فضل الرحمان پر اعتماد کے حوالے سے دونوں جماعتوں کا ریکارڈ انتہائی متنازع رہا ہے۔مولانا فضل الرحمان کی سربراہی پر اگر بات کی جائے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مولانا فضل الرحمان اس وقت واحد لیڈر ہیں جو کسی بھی موسم میں اور کسی بھی حالات میں اپنے کارکنان کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان اس وقت پاکستان کے زیرک ترین راہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں ہیں۔انہوں نے 2002 میں اپنی بہترین حکمت عملی کے باعث ایک صوبے میں حکومت بنالی۔مرکز میں انہوں نے وزیراعظم بننے کا انتخاب بھی لڑا۔لیکن یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ کس نے انہیں ووٹ دیا تھا اور کس نے ووٹ نہیں دیا تھا۔مولانا فضل الرحمان نے پورے ملک میں کئی ملین مارچ کئے۔پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں کامیاب جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کیا۔لیکن پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے عدم تعاون کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ان کی کشتی کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر ان کے تمام رہنما غائب ہوگئے۔اور جو آے بھی وہ کنٹینر پر چند لمحے کے لئے حاضری لگوانے کے بعد دوبارہ نہ پلٹے ۔اسلام آباد دھرنے میں دونوں جماعتوں نے وعدوں کے باوجود اپنی انفرادی شرکت کو ہی ممکن بنایا لیکن ان کے کارکنان شریک نہ ہوئے۔مولانا فضل الرحمان ان تمام ہتھکنڈوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ان کو پتا ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری ان کی سربراہی پر کیوں متفق ہوئے ہیں۔لیکن بہت سے لوگ جوسوچ رہے شاید پورا نہ ہو پائے اورمولانا فضل الرحمان کی طاقت سے فائدہ اٹھا کر اقتدار کا ہما کسی اور کے سر پر بیٹھ جائے۔اس لئے تمام جماعتوں کے کردار کا انفرادی جائزہ لیا جائے تو ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے اور تمام جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے کو حاصل کرنے کے لئے الگ الگ انداز میں کوشاں ہیں۔اور یہی چیز اپوزیشن اتحاد کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔پی ڈی ایم کے سربراہ اس امر سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ انہوں نے یہ سربراہی قبول کر کے خود کو دو دھاری تلوار پر لا کھڑا کیا ہے۔پیپلز پارٹی کا بڑا حصہ کسی مذہبی راہنما کی قیادت قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔مولانا کو اس بات کا ادراک ہے کہ اگر انکی جماعت کا مسلکی رنگ جلسوں ہر غالب آ گیا تو یہ تحریک اپنی موت آپ مر جاے گی۔انکے جلسوں میں مذہبی نوعیت کاتحرک ہوا تو اسکے بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔مولانا،گزشتہ دنوں مذہبی جماعتوں کے ایک مارچ کے افسوسناک انجام سے باخبر ہیں کہ مفتی منیب الرحمان کی قیادت میں ہونے والے ملین مارچ میں ایک متنازعہ نعرے نے اسکے اثرات کو خس و خاشاک کی مانند کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان کا اعتماد غیرمتزلزل محسوس ہو رہا ہے۔مہنگائی کے طوفان کے باوجود ان کی حکومت مستحکم ہے۔انداز حکمرانی پر مختلف سوالات کے باوجود وہ پاکستان میں حکمرانی کرنے کا گر جان چکے ہیں۔وہ خوب سمجھتے ہیں کہ انہیں کس سے بنا کر رکھنی ہے اور کن کو اہمیت نہیں دینی۔گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹر ویو میں وہ کھل کر کہہ چکے ہیں کہ وہ اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ان کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے کہ اپوزیشن اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود اداروں سے لڑائی کی متحمل نہیں۔اس لئے موجودہ اپوزیشن اتحاد سے عمران خان کے اقتدار کو دور دور تک کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔حکومت جو قانون سازی چاہتی ہے وہ ہو جاتی ہے۔ایف اے ٹی ایف کے تمام قوانین منظور ہو چکے ہیں۔جس قانون پر بھی حکومت ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے،بلاجھجھک ڈال دیتی ہے۔دوسری طرف نواز شریف لندن میں میں بیٹھے ہیں جبکہ شہباز شریف جیل میں ہیں۔شہباز شریف کے جیل جانے کا قصہ بھی دلچسپ ہے۔عدالت کے اندر انہوں نے اپنی درخواست ضمانت واپس لیکر حکومت کو دعوت دی کہ انہیں گرفتار کریں۔تاکہ اس مشق سے محفوظ رہا جا سکے۔جب میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے عہدیداران کو اداروں سے ملاقات نہ کرنے کا حکم دیا تو اسی وقت میاں شہباز صاحب کے جیل جانے کی حکمت مزید واضح ہوگی۔باہر کی ملاقات تو لیک کر دی جاتی ہے۔جیل سے پیغام رسانی آسانی سے ہوتی رہے گی۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پورے ملک میں یہ تاثر موجود ہے کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے بیانیہ کے ساتھ نہیں چلنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے خود کو پابند سلاسل کرانا مناسب سمجھا۔جب کہ نواز شریف اپنی تقریر کے بعد معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جا چکے ہیں۔اگر کوئی دوست یہ سمجھتا ہے کہ میاں نواز شریف لندن کی آرام دہ زندگی اور ٹھنڈی فضاؤں کو چھوڑ کر پاکستان میں آکر اپوزیشن کی قیادت کریں گے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔وہ اپنے ایک فیصلے پر سختی سے قائم ہیں کہ اب وہ کسی صورت پاکستان نہیں آئیں گے۔جو دوست مشرف کے دور کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ مشرف کے دور میں بھی خاموشی سے گئے تھے۔اور پھر اسی طرح واپس آ گئے تھے۔انہیں اتنا عرض کروں گا کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔نواز شریف کے اندرونی اور بیرونی دوستوں کی ترجیحات میں کافی حد تک تبدیلی آ چکی ہیں۔بقول شاعر
اب نہ وہ عمر نہ وہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹیں
میاں شہباز شریف کی سیاست اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔اگر مریم نواز کو کھل کر کردار ادا کرنے کا موقع دیا گیا تو جماعت کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔البتہ میاں شہباز شریف ٹمٹماتے چراغ کی مانند اپنی آخری کوشش میں مصروف ہیں۔پی ڈی ایم سے دوری اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔
پاکستان مسلم لیگ کے کئی رہنما بھی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مشن کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔حال ہی میں نون لیگ کے رہنما اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے جناب آصف علی زرداری پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اس انسان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔آصف زرداری کے خلاف خواجہ آصف کا یہ جملہ اس اتحاد پر ایک خودکش حملے کی طرح تھا تاہم نواز شریف کی طرف سے فوری طور پر یہ بیان آگیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے یہ جماعت کا موقف نہیں ہے۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان نے خواجہ آصف کے بیان پر سخت ردعمل دیتے ہوئے انہیں مشکوک شخص قرار دیا۔
پی ڈی ایم میں شامل تین بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد غیرفطری اتحاد ہے۔تینوں جماعتیں اپنے وقتی مفادات کی خاطر ایک پیج پر جمع ہوئی ہے۔اور یہ اتحاد قائم ہونے سے پہلے دراڑیں واضح طور پر نمودار ہو رہی ہیں۔
پی ڈی ایم کی تحریک کو بین الاقوامی ادارے بھی غور سے دیکھ رہے ہیں۔صدر ٹرمپ اپنے انتخابی وعدے کی تکمیل کیلئے کرسمس سے قبل اپنے فوجیوں کو افغانستان سے نکالنا چاہتے ہیں۔وہ ہر صورت اپنا الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ملک کی اندرونی صورتحال انکے موافق نہیں۔انکے مخالف امیدوار بائنڈن کے ساتھ ہونے والے پہلے مباحثہ میں ہی صدر ٹرمپ کا بار بار لاجواب ہونا انکے الیکشن پر اثرانداز ہورہا ہے۔افغانستان سے فوجوں کا انخلاء واحد نکتہ ہے جہاں سے ان کو کامیابی کی کرن نظر آ رہی ہے۔اگر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا تو افغان امن عمل کو شدید دھچکا لگے گا۔حالیہ دنوں میں زلمے خلیل زاد کی اسلام آباد میں مصروفیات سے افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار واضح ہوتا نظر آ رہا ہے۔امریکہ اور عالمی طاقتیں اس مرحلہ پر کسی بھی قسم کی تبدیلی یا عدم استحکام کو پسند نہیں کرے گی۔اسی طرح چین،اور روس یہاں تک کہ ایران بھی پاکستان میں سیاسی استحکام کا خواہاں ہے۔لہٰذا بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اتحاد اپنی حکومت مخالف تحریک کے ذریعے حکومت کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے؟اس کے جواب میں ،میں یہ عرض کروں گا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام پہلے ہی مہنگائی، بدعنوانی ،معاشی بحران کی وجہ سے پریشان ہیں۔مہنگائی کی اکثریت نے عام آدمی کا بھرکس نکال کے رکھ دیا ہے۔اشیائے ضرورت کی چیزیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔امن و امان کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔تمام چھوٹے بڑے شہروں میں دن دیہاڑے چوری ڈکیتی کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں۔پاکستان میں عدم تحفظ کی صورت حال ایسے ماضی قریب میں نہیں دیکھی گئی۔ان تمام حقائق کے باوجود، میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ اتحاد میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ عوام کو سڑکوں پر لاسکیں۔پاکستان مسلم لیگ نون اندرونی طور پر توڑ پھوڑ کے عمل سے گزر رہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین کرپشن مقدمات میں عدالتوں کچہریوں کے چکر لگانے میں مصروف ہیں۔اکیلے مولانا فضل الرحمان مدارس کی طاقت کے باوجود یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ وہ عام آدمی کو سڑکوں پر نکال سکیں۔پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کارکن زیادہ سے زیادہ اپنے شہروں یا اپنے ضلع کی حد تک احتجاج میں حصہ لیتے ہیں۔مسلم لیگ کے منتخب نمائندگان عوام کو سڑکوں پر لانے کے بجائے خود گوشہ عافیت میں چھپے ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت بھی ابھی احتجاج سے دور رہنے میں عافیت سمجھ رہی ہے۔لہٰذا اس بات کا بہت کم امکان موجود ہے کہ یہ حکومت مخالف اتحاد حکومت کے لیے کوئی مشکلات پیدا کر سکے گا۔مسلم لیگ نون کے کئی اراکین حکومت سے رابطے میں آچکے ہیں۔فارورڈ بلاک بنانے کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔لین دین کے معاملات طے ہو رہے ہیں۔لہٰذا ان حالات میں بڑے پیمانے پر تبدیلی خارج از امکان ہے۔اس تحریک سے مسلم لیگ ن کچھ رعائتیں حاصل کرنا چاہے گی،پیپلز پارٹی مقدمات میں نرمی چاہے گی جبکہ مولانا فاٹا میں اپنا متحرک کردار چاہیں گے۔ان تینوں بڑی جماعتوں کی نیتوں کے مطابق ہی انکو پھل ملے گا۔تاہم ماضی کے تجربات اور مشاہدہ یہی بتاتا ہے، ان جماعتوں کو ریلیف ملتا نظر نہیں آ رہا۔البتہ شہباز شریف یا جماعت کا کوئی اور لیڈر اگر کارکنان کو فوج مخالف ایجنڈے سے دور رکھنے میں کامیاب ہوگیا تو شائد عوام میں انکی پذیرائی ہوسکے۔کیونکہ ہر قسم کے منفی پراپیگنڈے کے باوجود پاکستانی عوام آج بھی فوج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ان سب معروضات کے باوجود اگر حکومت کی طرف سے مہنگائی پر قابو پانے میں کچھ سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے،اپنی گورننس کو بہتر بنانے،اور عوامی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے،تو عوامی سیلاب ازخود سڑکوں پر آئے گا جسے روکنا حکومت سمیت کسی بھی ادارے کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔