کوئی بھی ایساشخص جو گزشتہ دو برس سے بیرون ملک مقیم تھا‘ اگر آج پاکستان آئے تو اسے ایک ایسا پاکستان دکھائی دے گا جو نہ صرف ماضی سے مختلف ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کے لئے فراٹے بھرتا بھی دکھائی دیگا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً یہ کہ آج اداروں کو مضبوط بنا دیا گیا ہے‘ آج کوئی کرپشن کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر وہ پکڑا گیا تو کوئی اس کے کام نہیں آئے گا اور اسے جیل کی ہوا کھانا ہی پڑے گی۔ کتنے ہی طاقتور ستون تھے جنہیں ہم نے موجودہ حکومت کے دور ِ اقتدار میں منہ کے بل گرتے دیکھا۔ کتنی ہی جونکیں تھیں جو عشروں سے ملک کا خون نچوڑ رہی تھیں آج جن سے ہمیں نجات مل چکی ہے اور کتنے ہی لٹیرے تھے جو ملکی معیشت کا جنازہ نکالنے کے درپے تھے آج وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ ملک کو اس سمت میں ڈالیں جو کامیابی کی جانب جاتی ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے خارجہ پالیسی کی صفیں درست کیں۔ دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر خطوط پر استوار کیا۔ دوست ممالک کی حمایت حاصل کی اور سعودی عرب‘ چین اور قطر سے فوری معاشی امداد حاصل کی جس سے معیشت کی ڈوبتی سانسوں کو سہارا ملا۔
بطور وزیراعظم عمران خان کا دوسرا اہم کام فوج اور حکومت کو ایک صفحے پر لانا تھا اور اس کے ٹھوس اور دور رس نتائج بھی ہم نے دیکھے۔ کورونا جیسا کوئی عالمی وبائی بحران ہو یا پھر بھارت کے ساتھ دوبدو لڑائی‘ حکومت اور فوج کے اس اتحاد کی وجہ سے پاکستان کو تمام محاذوں پر زبردست کامیابی ملی۔ دونوں کے درمیان ہم آہنگی کا فائدہ یہ ہوا کہ جو بھی قدم اٹھایا گیا پوری دنیا سے اس کی تعریفوں کی بازگشت سنائی دی۔ آپ کرتار پور راہداری کو ہی لے لیں‘ یہ کام حکومت اور پاک فوج دونوں کی مشترکہ کاوشوں کی وجہ سے ہی ممکن ہواوگرنہ نعرے اور بیانات تو ماضی میں بھی بہت دئیے گئے لیکن کام ہوتے صرف اسی دور میں دیکھے گئے جس کی سربراہی عمران خان جیسا نڈر لیڈر کر رہا ہے۔ جی ہاں ایسا لیڈر جس نے مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں اس دلیرانہ انداز میں اٹھایا کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔ وزیراعظم عمران خان کی اس تقریر میں نہ صرف کشمیری عوام پر ہونے والے بھارت کے سفاک چہرے سے نقاب اٹھایا گیا بلکہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک سمیت دنیا بھر میں لوگوں کو کشمیر کے مسئلے بارے اصل حقائق معلوم ہوئے۔ کشمیر میں آرٹیکل تین سو ستر کا بھارت کی جانب سے خاتمہ کیا گیا تو پاکستان نے بھارت کی اس بھونڈی چال کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ کشمیر کے لئے اسلامی کانفرنس کا خصوصی رابطہ گروپ فعال ہوا جس میں وزرائے خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھارت کا پردہ چاک کیا‘ مظلوم کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کو دنیا کے سامنے رکھا گیا اور اس مسئلے پر بھارت کے خلاف بھرپور لابنگ کی گئی۔
غربت میں کمی لانا تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا بڑا کارنامہ تھا جس کے لئے وفاقی سطح پر احساس پروگرام شروع کیا گیا اور پہلی مرتبہ ایک ایسا ڈیٹا بیس مرتب کیا گیا جس میں دیہاڑی دار اور مزدوروں کا بھی ریکارڈ مرتب کیا گیا تاکہ انہیں بھی معاشی اور مالی فوائد میں شریک کیا جا سکے۔ یہ وہ طبقہ تھا جسے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا حالانکہ ان کی تعداد کروڑوں میں تھی اور یہ اپنے خون پسینے سے اس ملک کی تعمیر اور ترقی میں حصہ ڈال رہے تھے۔ اسی بے سہارا طبقے کے لئے پہلی مرتبہ پناہ گاہوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جن میں آنے والے پردیسی مسافروں کی عزت اور تکریم کا بھی بھرپور خیال رکھا گیا۔ یہ طبقہ کورونا لاک ڈائون میں بھی بہت زیادہ متاثر ہو رہا تھا چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی تاکہ معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہے اور وبائی نقصان سے بھی ممکن حد تک محفوظ رہا جا سکے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری حکومت نے کورونا پر دانشمندانہ پالیسی اپنائی اور ملک کو شدید نقصان سے محفوظ رکھا وگرنہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح دنیا کی جدید معیشتیں اس بیماری کے آگے بے بس ہوئیں اور امریکہ برطانیہ ،جرمنی سمیت ترقی یافتہ ممالک میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اموات ہوئیں۔ یہاں سے وزیراعظم عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں اور معاملہ فہمی کی خوبیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ پاکستان جدید ممالک کے مقابلے میں بہت کمزور تھا لیکن بہتر اور بروقت فیصلہ سازی نے ہمیں بڑے نقصان سے بچایا۔
کس کس کامیابی کی بات کریں کہ فہرست اتنی طویل ہے کہ اس تحریر میں سما نہیں سکتی۔ فاٹا کا انضمام ہو‘کفایت شعاری کی مہم سے ہونے والی بچت ہو‘ کرپشن پر کریک ڈائون ہو‘ صحت انصاف کارڈ پروگرام کا آغاز ہو‘ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے شجر کاری مہم ہو یا سرکاری اداروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ہو‘ موجودہ حکومت نے دو سال کے مختصر عرصے میں اتنی کامیابیاں سمیٹی ہیں کہ نہ صرف ملک واپس اپنے پائوں پر کھڑا ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھی ان اقدامات کی کھلے بندوں تعریف بھی کر رہی ہے۔ آج چین ملائشیا ترکی برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے شہریوں کو ویزا آن ارائیول کی سہولت ملی جس کے نتیجے میں کاروباری افراد فوری بزنس ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ساری کامیابیاں صرف عمران خان کی کامیابیاں نہیں بلکہ ہر اس شہری کی ہیں جس نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور اسے اقتدار میں لا کر اس ملک کی بہتری لانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
جس تیزی سے آج پاکستان میں کرپشن میں کمی اور اداروں کی کارکردگی میں بہتری آ رہی ہے بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب لوگ چین اور امریکہ کی صف میں پاکستان کو بھی دیکھیں گے۔ یہ ناممکن اس لئے نہیں کہ اس قافلے کو جو شخص لیڈ کر رہا ہے اس کی نہ صرف نیت درست ہے بلکہ وہ گزشتہ بائیس برس سے جدوجہد بھی انہی مسائل کے حل کے لئے کر رہا ہے جن مسائل کا نام لے کر مختلف سیاستدان حکومتوں میں تو آتے رہے لیکن ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی بجائے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا اور اپنی جیبوں کو بھرنے میں لگے رہے۔ عمران خان نے بیس برس کا کام دو برس میں مکمل کر دیا ہے۔ ترقی کی رفتار یہی رہی تو اگلے تین برس میں موجودہ حکومت اس ملک اور اس کے عوام کی کایا ہی پلٹ دے گی کیونکہ جب کسی قوم کو ایسا لیڈر نصیب ہو جائے جس کا کوئی ذاتی کاروبار ہو نہ مال جمع کرنے کی حرص‘ تو پھر اس ملک اور اس کے عوام کی قسمت میں شاندار کامیابیاں لکھ دی جاتی ہیں۔