اسلام میں جبر کا تصور تک نہیں ہے۔ دین حنیف امن سلامتی برداشت و تحمل کا درس دیتا اور عملی طور پر اس کے مظاہرے ابتدائی دور سے آج تک نظر آتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں دیگر کچھ مذاہب کے پیروکار اسلام کے ساتھ تعصب بغض اور کِینے کا اظہار کرتے رہے ہیں اوریہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایسے مذاہب جو اسلامو فوبیا کا بُرے طریقے سے شکار ہیں ان میں ہنودیہود اور نصاریٰ سرفہرست ہیں۔ آخر الذکر دو مذاہب بھی ابراہیمی نسبت رکھتے ہیں۔یہ ایک چیز ان تینوں کی یگانگت کا سبب بن سکتی ہے مگر ان مذاہب کے کچھ کرتا دھرتاؤں جن کو نام نہاد کہا جا سکتا ہے۔وہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اپنے خبث باطن کوکبھی چھپا نہیں سکے۔ مسلمانوں کے رویے ان کے ساتھ کبھی معاندانہ اور مخاصمانہ نہیں رہے۔ مسلمان تو اسلام کو ادیانِ ابراہیمی کا تسلط سمجھ کر ان کا احترام کرتے ہیں مگر دوسری طرف معاملہ الٹ ہے۔ ان کے رویوں ہی کے باعث مسلمانوں کی عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف جنگیں ہو چکی ہیں اور آج فلسطین و کشمیر سمیت جو تنازعات لاینحل چلے آ رہے ہیں ان کے پسِ منظر میں بھی مسلمانوں کے ساتھ یکطرفہ عداوت کار فرما نظر آتی ہے۔دنیا امن کا گہوارہ بین المذاہب ہم آہنگی سے بن سکتی ہے۔ اس پراہلِ اسلام کا زور رہا ہے۔ ہم بجا طور پر بین المذاہب ہم آہنگی کی بات کرتے ہیں اس کے ساتھ ہمیں بین المسالک ہم آہنگی کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ جب ہم مسلمان فرقہ ورایت اور مسالک کے مابین عدم برداشت کے رویوں کا اظہار کرتے ہیںتو ہمارا بین المذاہب ہم آہنگی کے بارے میں کیس کمزور یو جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں شاید پاکستان میں سب سے زیادہ فرقہ ورایت کو ہوا دی جاتی ہے۔ اور غیر ملکی قوتوں نے کچھ لوگوں کا مول تول لگا کر پاکستان کو فرقہ ورایت کا میدان جنگ بنانے کی کوشش کی ہے۔ رواں سال محرم پُر امن رہا مگر اس کے بعد نفرتیں پھیلانے کی ایک لہر سی اٹھی۔ نفرت انگیز تقاریر اور ریلیوں، جلسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یومِ عاشورہ کے بعدچہلم امام حسینؓ ایک بڑا صدماتی واقعہ ہے۔ جو8 اکتوبر کو ہو ا۔ لگتا تھا مسالک کے مابین اس روز ایک کشا کشی کی بڑی کی کیفیت ہو گی۔ اندرونی کم بیرونی زیادہ قوتیں اپنے اپنے پروردہ لوگوں پر سرمایہ کاری کر رہے تھے۔ جن کی زبانیں دوسروں کے خلاف زہر اگل اور انگارے برسارہی تھیں۔ حکومت کو اس سب کا احساس تھا اور بڑی دانش مندی سے حکومت کے علمائے سوء کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کے لیے صلح جو اور جید علما کو اکٹھا کر کے چہلم کو پُر امن بنا دیا۔ملک میں بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لئے وزیرمذہبی امور پیر نور الحق کی زیر صدارت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کے مابین چہلم سے دوروز قبل 20 نکاتی متفقہ ضابطہ اخلاق طے پایا ہے۔اجلاس میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز، مفتی تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمان، پروفیسر ساجد میر، مولانا محمد حنیف جالندھری سمیت دیگر علمائے کرام نے شرکت کی۔ یہ علمائے کرام قوم کی اجتماعی دانش وفکر کی علامت ہیں۔انہوں نے جس معاملے پر اتفاق کرلیا اس نے گویا قانون کا لبادہ اوڑھ لیا۔
علماء کرام کے مابین کئی معاملات پر اتفاق رائے کیا گیا ۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس ایک نکتے کو تمام مسالک کے اکابرین حرز جاں بنائیں گے اور اسی کی تلقین کریں گے کہ اپنا عقیدہ کبھی نہ چھوڑو دوسروں کو کبھی چھیڑو نہ۔یہی بین المذاہب ہم آہنگی کا بھی بہترین فلسفہ بن سکتا ہے۔ حکومت اور علمائے کرام کے مابین طے پانے والے ضابطہ اخلاق کو اسلامی ضابطہ حیات کا ایک عنصر قرار دیا جاسکتا ہے۔جس کے اثرات چہلم حضرت امام حسین ؓکے موقع پر دشمن کی سازشوں کی ناکامی اور امن کے قیام میں کامیابی کی صورت نے قوم نے دیکھ لیا ہے۔اسی کو حرز جاں بنانے کی ضرورت ہے۔اپنے اندر موجود دشمن کے پروردہ لوگوں کو نکال باہر پھینکنا ہوگا۔کل ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت اور داعش میںگٹھ جوڑ ہے۔بھارت اسے پاکستان میں کن کن مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے تھوڑا سا ماضی میں جائیں تو سب اظہر من الشمس ہوجائے گا۔کراچی میں بس حملہ جسے سانحہ صفورہ کہا گیا تھا ،اس میں داعش کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے تھے ۔اس سانحہ کی جے آئی ٹی میں سعد عزیز کا نام آیا مگر معاملہ منطقی انجام کا منتظر اور متقاضی ہے،اس سانحہ میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملے میں بچوں اور خواتین سمیت 42افرادجاں بحق ہوئے تھے۔