بس ایک ورد کیا جا بجا چراغ جلے

Oct 13, 2021

راول دیس کی سرزمینِ ادب اس قدر زرخیز ہے کہ جس زاویے سے دیکھا جائے اور جس پہلو سے پردہ کشائی کی جائے، علم و ادب کے نت نئے باب وا ہوتے ہیں۔ یہ علم کدہ ان شخصیات کی بدولت آباد ہے، جنھوں نے زندگی شعروادب کے نام کی۔ ہمدمِ دیرینہ منیر فیاض کا شمار بھی انھی ہمہ جہت شخصیات میںہوتا ہے جنھوں نے قلیل مدت میں، دنیائے ادب پردُور رس اثرات مرتب کیے۔ منیر فیاض بنیادی طور پر انگریزی ادبیات کے استاد ہیں عالمی ادب سے گہرا لگائو رکھتے ہیں۔ نوے کی دہائی کے اواخر میں شعر کہنا شروع کیا۔ غزل، نظم، ترجمہ اور تنقید کی طرف ان کا فطری میلان ہے۔ راول پنڈی کے ادبی منظرنامے پر ایک شاعر، ادیب، محقق، مترجم اور نقاد کی حیثیت سے جلوہ افروز ہیں۔ 2003ء تا 2007ء حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی کے جوائنٹ سیکریٹری اور سیکریٹری رہے۔ جدید مغربی شعرا کے حیات و فن پر  مقامی روزنامہ کے لئے کالم لکھتے رہے۔ نیز پی ٹی وی ورلڈ پر پاکستانی اور مشرقی ادبیات کے موضوع پر انگریزی پروگرام بھی کیے اور پاکستان کے نمائندہ جرائد ’’ادبیات‘‘، ’’مکالمہ‘‘اور ’’استعارہ‘‘ وغیرہ میں معاصر ناول اور نظم پر ان کے تنقیدی مضامین بھی شائع ہوتے رہے۔ انھوں نے فنِ ترجمہ کاری میں بھی خوب جوہر دکھائے۔ معاصر چینی کہانیوں اور چنگیز آتما توف کے ناولوں کے اردو تراجم کیے۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے تراجم کی ہر دو کتب شائع کیں۔تجزیاتی و تنقیدی تحریریں جنابِ منیر فیاض کے تنقیدی شعور کی عکاس ہیں۔ مثلاََ عالمی افسانوی بیانیے کے ارتقا کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ کلاسیکی یونانی ادیبوں سے زیادہ آفاقیت کسی اور زمانے اور جغرافیے کے حصے میں نہیں آئی۔ یونانی ادیبوں کا بنیادی مسئلہ انسان اور تقدیر (fate) کی آویزش تھا۔ اس آویزش کے نتیجے میں حتمی تباہی (catastrophe) انسان کی ہوتی ہے، مگر انسان کی عظمت یہی ہے کہ وہ اس یقینی تباہی سے آگاہی کے باوجود اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے۔ یہی جنگ اسے ہیرو بناتی ہے‘‘
پیش منظر پر جھلملانے والے مصرعوںکے پس منظر میں نوجوان تخلیق کار منیر فیاض کی لگن، جستجو اور ریاضت کارفرما ہے، جس کے باعث  فن اور اس کی باریکیاں، ان کے ہاں پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ فکروفن کا ادغام ان کے ریاض کا نتیجہ ہے۔ ان کے ہاں ندرتِ خیال ہے۔ انھوں نے خیالات اور موضوعات کو نت نئے سانچوں میں ڈھالا اور تازہ معانی پہنائے۔ نعت گوئی میں قلم اٹھایا تو گویا لفظ لفظ قرطاسِ عقیدت پر نقش ہوتا چلا گیا۔ ان لفظوں کے امر ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نسبت بارگاہِ رسالتؐ سے ہے جہاں حرف حرف، لفظ لفظ سرکار کل عالمؐ کی مدح کے لئے صرف ہوا چاہتا ہے:
جو دستِ سرور کونینؐ سے رفو ہوئے ہیں
وہ چاک سارے زمانے کی آبرو ہوئے ہیں
کتاب اب بھی ہے نازاں کہ حرف اقرا کے
انھی لبوں سے ادا ہو کے سرخرو ہوئے ہیں
برادرم منیر فیاض نے سلام کی صورت میں، اہلِ کربلا کی بارگاہ میں بھی خوب اشعار کہے ہیں۔ سلام وہی کَہ سکتا ہے کہ جس کا اہلِ کربلا کے ساتھ ایک تعلق استوار ہو۔ تعلق نہ ہو تو مصرعوں میں تاثیر نہیں آتی اور تاثیر کا تعلق توفیق سے ہے۔ جنابِ منیر فیاض صاحبانِ توفیق میں سے ہیں کہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی محبت و مودّت میں مصرعے ان کے نوکِ قلم پر آئے ۔ یہی ان کا زادِ راہ ہے۔ سلام کے چند اشعار دیکھئے:
نواحِ شام بھٹکتے ہوئے سپاہی کو
سوادِ خلد کا رستہ ملا چراغ جلے
ہوا نے جب بھی کیا فیصلہ بجھانے کا
ہوا نے جب بھی کیا فیصلہ، چراغ جلے
دکھائی دیتا نہ تھا خیر کا کوئی منظر
پھر ایک شب سرِ کرب و بلا چراغ جلے
تمام نور بہتّر کا فیض ہے فیاض
بس ایک ورد کیا جا بجا چراغ جلے
شاعری کے باب میں،جنابِ منیر فیاض خوب صورت استعارے اور گوناگوں تلازمے لائے ہیں۔’’حرف آواز سے ٹوٹا تو جیے گا کیسے، رنگ تصویر سے نکلا تو کہاں جائے گا‘‘ کہنے والے کے ہاں حرف اور آواز، رنگ اور تصویر کا  گہرا ربط ہے۔ وہ مسلسل ایک خیال، ایک رنگ، ایک تصویر کے تعاقب میں ہیں۔ ان کے ہاں سَت رنگی قوسِ قرح ہم کلام ہے۔ ان کے ہاں صدائیں تجسیم ہو کر ایک عکس کی صورت میں جھلملانے لگتی ہیں۔ تصویر ان سے محوِ گفتگو ہوتی ہے اور آئینہ انھیں آنکھ بھر کے دیکھتا ہے:
ایک تصویر مگر مجھ سے سخن کرتی ہے
ایک آئینہ مگر دیکھتا جاتا ہے مجھے
شکنیں میرے خدوخال سے لپٹی ہوئی ہیں
نقش گر کانپتے ہاتھوں سے بناتا ہے مجھے
غالب نے کہا تھا: ’’گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار، لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا‘‘۔ جنابِ منیر فیاض نے بھی دنیا کے جھمیلوں کے باوصف محبوب سے قطعاََ صرفِ نظر نہیں کیا۔ ان کا خیال، خیالِ یار میں رہا اور وہ اسی خیال میں مست الست رہے، اس لئے کہ وہ اہلِ دل میں سے ہیں اور اہلِ دل کارِ محبت میں گم بلکہ گم سم رہتے ہیں:
یار لوگوں کو خبر کیا کہ اک اہلِ دل نے
کارِ دنیا بھی کیا کارِ محبت کرتے 

مزیدخبریں