کیا پوری کا بینہ یا کمیٹی کو ہی ملزم  قرار دے دیں : چیف جسٹس، نیب ترامیم سے منظم کرپشن کو فروغ ملے گا : جسٹس اعجاز الاحسن 


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترامیم کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل خواجہ حارث نے پانچویں روز بھی دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کابینہ اور ورکنگ ڈیویلپمنٹ پارٹیز کے فیصلے بھی نیب دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیٹیوں اور کابینہ میں فیصلے مشترکہ ہوتے ہیں، مشترکہ فیصلوں پر کیا پوری کابینہ اور کمیٹی کو ملزم بنایا جائے گا؟۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ پوری کابینہ یا کمیٹی ملزم بنے گی تو فیصلے کون کرے گا؟۔ ہر کام پارلیمان کرنے لگی تو فیصلہ سازی کا عمل سست روی کا شکار ہوجائے گا، ایل این جی معاہدے کے حقائق دیکھے بغیر کیس بنایا گیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کئی بیوروکریٹ ریفرنس میں بری ہوئے لیکن انہوں نے جیلیں کاٹیں، بعض اوقات حالات بیوروکریسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آمدن سے زائد اثاثے پوری دنیا میں جرم تصور ہوتے ہیں، عالمی معیار اور مقامی قانون کے تناظر میں نیب ترامیم کا جائزہ لیں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب سے بچ نکلنے والے کسی اور قانون کی زد میں آسکتے ہیں؟ جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے لیے کوئی اور قانون موجود نہیں ہے، نیب ترامیم کے بعد 50 کروڑ سے زائد کی کرپشن ثابت کرنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے منظم کرپشن کو فروغ ملے گا، ترمیم سے اجازت دی گئی ہے کہ وہ مالی فائدے لیں جو نیب قانون کے زمرے میں نہ آئیں۔ وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ ترمیم کے بعد مالی فائدہ ثابت ہونے پر ہی کارروائی ہوسکے گی، اختیارات کے ناجائز استعمال کے لیے عوامی عہدیدار کا براہ راست فائدہ لینا ثابت کرنا ہوگا، عوامی عہدیدار کے فرنٹ مین اور بچوں کے مالی فائدے پر بھی کیس نہیں بنے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترمیم شدہ قانون موجودہ حالت میں 1999 میں آتا تو چیلنج ہوتا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ قانون پر عملدرآمد میں نقائص سامنے آنے پر ہی اسے چیلنج کیا جاتا ہے، مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے نیب ترامیم کی گئی ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ موجودہ حکومت کے آنے کا پہلا ٹارگٹ ہی اپنے نیب کیسز ختم کرنا تھا۔ خواجہ حارث کے دلائل جاری تھے کہ اس دوران عدالت نے مزید سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...