ٹیچرز ڈے: وزیر اعلیٰ پنجاب اور مہنگائی

5 اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اساتذہ کا دن منایا گیا۔ ویسے توہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا ہر دن اساتذہ اور والدین کا دن ہوتا ہے اور ہمیں ہر روز بلکہ ہر وقت ان کی عزت، احترام اور خدمت کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن پھر بھی ایک دن مقرر ہونے سے ہمیں بھی یاد دہانی ہو جاتی ہے۔ ٹیچرز ڈے پر طالب علم اپنے اساتذہ کو گلدستے اور تحائف پیش کرتے ہیں کچھ اپنے طالب علمی کے دور کے اساتذہ کو ملنے جاتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کو ان کا مرہون منت قرار دیتے ہیں تو وہ ریٹائرڈ اساتذہ خوش ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں اور کامیاب اپنے سابق طالب علموں کو دیکھ کر اساتذہ اس کو اپنی محنت کا صلہ محسوس کرتے اور خوش ہوتے ہیں اور مزید کامیابیوں کیلئے دعائیں دیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سائیکل اور موٹرسائیکل رکھنے والا ااساتذہ ریٹائرمنٹ پر بھی سائیکل یا موٹر سائیکل کے ہی مالک ہوتے ہیں لیکن انکے شاگرد گاڑیوں، کوٹھیوں، فیکٹریوں کے مالک اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔ طلبا کی کامیابی بھی اساتذہ کی کامیابی ہے۔ ہمیں اپنے سابق اساتذہ سے کبھی کبھار ملنے جانا چاہے۔ ان کو کوئی تحفہ دینا چاہئے۔ اپنی کامیابیوں کیلئے انکا شکر گزار ہونا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی قوم کی ترقی میں اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اساتذہ کو نہایت عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے واقعات بھی مشہور ہیں۔ باباجی اشفاق احمد بھی اکثر یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ غالباً اٹلی میں انہیں عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جج نے ان کا پیشہ پوچھا جب انہوں نے بتایا کہ وہ استاد ہیں تو جج نے اعلان کیا کہ ایک استاد ہمارے درمیان موجود ہیں سب احتراماً کھڑے ہو جائیں اور تمام لوگوں کے ساتھ جج خود بھی کھڑا ہو گیا۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اب ہماری اہم شخصیات بھی ٹیچرز ڈے پر اپنے حیات اساتذہ کو ملنے جاتی ہیں۔ یہ اساتذہ کو بہترین خراج تحسین ہے۔ دیگر شخصیات کے علاوہ معاون خصوصی وزیراعلیٰ پنجاب خرم منج بھی اپنے اساتذہ کے گھر تحائف لے کر گئے انکے ساتھ وقت گزارا اور انکے مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی۔ صوبائی وزیر تعلیم مرادراس نے اساتذہ کے عالمی دن پر کہا کہ میں دنیا بھر کے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ تعلیم دوست وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر اپنے بیان میں کہا کہ اس موقع پر میں اپنے اور تمام اساتذہ کو عزت و احترام سے سلام پیش کرتا ہوں۔ اساتذہ کی عزت و تکریم سب کا فرض ہے۔ اساتذہ قوم کے محسن اور ہمارا افتخار ہیں۔
 اُستاد کی عزت و تکریم کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کالج اساتذہ کے مسائل حل کرنے کیلئے فول پروف سسٹم وضع کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کیلئے محکمہ ہائر ایجوکیشن، ریگولیشن اور قانون کے سیکرٹریز پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ لیکن افسوس کہ دوسری طرف ان ہی ایام میں پشاور میں اساتذہ کے پُرامن احتجاج کے دوران اساتذہ پر شدید لاٹھی چارج کیا گیا اور انکے مسائل سننے یا حل کرنے کے بجائے تشدد کر کے انکی تذلیل کی گئی جو قابل مذمت ہے۔پاکستان میں سرکاری سکولوں اور کالجوں کے ریگولر اساتذہ کی تنخواہیں معقول ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں میں جس رفتار سے مہنگائی اور خاص طور پر بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے اس تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ کنٹریکٹ اساتذہ کا مسئلہ یہ ہے کہ کئی کئی سال تک پڑھانے کے باوجود ان کو مستقل نہیں کیا جا رہا۔ اس حوالے سے بھی حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ 
وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے سابقہ دور میں طلبہ و طالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر کالجوں میں سیکنڈ شفٹ کا آغاز کیا تھا جو آج تک جاری ہے جس سے طلبہ و طالبات کی بہت بڑی تعداد استفادہ کر رہی ہے اور متوسط طبقے کے بچے پرائیویٹ کالجوں کی بھاری فیسوں سے بچ کر سرکاری اداروں میں زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ سیکنڈ شفٹ کیلئے سرکاری کالجوں کے حاضر اور سابق اساتذہ کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ کوالیفائیڈ اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ ان اساتذہ کو تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے بارہ تیرہ سال ہو گئے ہیں لیکن ان کو معاوضہ ’’فی پیریڈ‘‘ کے حساب سے دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ جہاں شرمناک ہے وہاں ان کا فی پیریڈمزید شرمناک ہے حالانکہ یہ اساتذہ بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہوتے ہیں۔ کسی اُستاد کو دن میں دو پیریڈ ملتے ہیں تو کسی کو تین چار۔ اگر وہ پبلک ٹرانسپورٹ سے یا اپنی سواری پر ذرا دور سے آئے تو اتنا اس کا پٹرول کا خرچ ہو جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی بنانی چاہئے یا تو ان اساتذہ کے فی پیریڈ مشاہرے میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے یا ان اساتذہ کو ریگولر کیا جائے تاکہ موجودہ بدترین مہنگائی کے دور میں یہ اساتذہ عزت سے اپنی گزر بسر کر سکیں۔

ای پیپر دی نیشن