امریکی سیاست سمجھنا آسان نہیں 

یوں تو دنیا کے ہر پسماندہ اور غیرترقی یافتہ ملک کے معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی نظام کو سمجھنے کیلئے جغرافیائی حالات اور علاقائی طرز معاشرت کا ادراک ضروری ہے تاہم ترقی یافتہ ممالک کے پسماندہ ممالک کے بارے میں قائم نظریات کو سمجھنا اس لئے بھی دشوار ہے کہ نادار ممالک کے اقتصادی نظام کو جانچنے کے اصل پیمانے پر بھی ترقی یافتہ ممالک کا ہی اختیار ہے۔
امریکہ کو آج بھی دنیا کی سپرپاور کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی 52 ریاستوں تک پھیلے سیاسی جال سے پسماندہ ممالک کا آسانی سے بچ نکلنا اتنا آسان نہیں جتنا ترقی پذیر ممالک باالعموم تصور کرتے ہیں مگر یہ بھی قانون قدرت ہے کہ بلندی کے بعد پستی لازم ہے۔ امریکی صدر بائیڈن گو منجھے ہوئے سیاست دان ہیں مگر بعض عالمی ممالک کے بدلتے سیاسی‘ معاشی و اقتصادی حالات نے انہیں بھی اب بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ایک وقت تھا امریکہ کی دی گئی ہر پالیسی کو اسکے دوست ممالک آنکھیں بند کرکے اس لئے اختیار کرلیتے مبادہ امریکہ ناراض ہو جائے۔ مگر اب حالات ہی نہیں دوستانہ تعلقات بھی یکسر بدل چکے ہیں۔ 
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اوپیک کے اجلاسوں میں تیل کی پیداوار میں یومیہ کمی کا فیصلہ‘ موسمی تبدیلیوں اور ماحولیات پر پائے جانیوالے اختلافات اور روس یوکرائن جنگ کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر بعض آزاد اور خودمختار ممالک کے روس سے بڑھتے دوستانہ قریبی روابط اس بات کا غماز ہیں کہ امریکہ کی ہر معاشی اور اقتصادی پالیسی پر مثبت ردعمل کا اظہار اب ممکن نہیں رہا۔ اوپیک کے حالیہ اجلاس اس عمل کا بڑا ثبوت ہیں جس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکی صدر بائیڈن کی خواہش کے باوجود تیل کی یومیہ پیداوار بڑھانے سے مبینہ طور پر معذرت کرلی ہے۔ آنیوالے دنوں میں بین الاقوامی سیاست میں بھی سیاسی بھونچال کی پشین گوئیاں کی جارہی ہیں۔ امریکہ کی تیل کی پیداوار میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرنے اور چین کے بعد اب روس سے سرد تعلقات بلاشبہ کسی بڑے سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ہیں کہ روسی صدر پیوٹن پہلے ہی جوہری تباہی کی سنگین دھمکی دے چکے ہیں۔ 
دوسری جانب بائیڈن کے 52 سالہ وکیل بیٹے کو 2014ء میں مبینہ طور پر کوکین پینے کے مثبت ٹیسٹ پر امریکی بحریہ سے برطرف کر دیا گیا تھا جو کوکین کے نشے کا مبینہ اعتراف بھی کر چکے ہیں اور جن کیخلاف 2018 ء سے مزید تحقیقات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہی واقعہ بزرگ والد کیلئے غم کا باعث بنا ہوا ہے۔ شاید یہ اسی غم کا نتیجہ ہے کہ صدر بائیڈن نے ایسے تمام امریکیوں کو جو ’’بھنگ‘‘ رکھنے کے جرم میں گرفتار ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے‘ اب عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔
 امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ’’بھنگ‘‘ کو ہم اگر ہیروئن کے نشہ کی طرح سمجھتے ہیں تو یہ قابل تعجب بات ہے۔ کسی ’’بھنگی‘‘ کو محض اس لئے جیل بھجوا دیا جائے کہ اس سے بھنگ برآمد ہوئی اس لئے بھی مناسب نہیں کہ مجرم ٹھہرائے جانے پر ایسے نشئیوں کو ملازمتیں اور تعلیمی مواقع میسر نہیں ہوتے۔ اس لئے میری جانب سے دی گئی اس عام معافی سے یہ معاشرتی بوجھ ختم ہو جائیگا۔ 
اس طرح امریکہ نے ڈرون حملوں کی اپنی پالیسی بھی اب تبدیل کر دی ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق کسی بھی دہشت گرد کو نشانہ بنانے کیلئے اب امریکی صدر کی توثیق درکار ہو گی۔ یاد رہے سابق صدر ٹرمپ دور میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کر دیئے گئے تھے۔ نئی پالیسی میں کمانڈو چھاپوں اور ڈرون حملوں کیلئے قانون اب مزید سخت بنا دیا گیا ہے۔ اس پالیسی میں صومالیہ‘ یمن اور افغانستان ایسے ممالک شامل ہونگے۔ 
من حیث القوم امریکنوں کو اگر دیکھا جائے تو زیادہ تعداد تساہل عارفانہ کا شکار ہے۔ امریکی باشندوں کی زیادہ تر تعداد اپنے ملک کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتی۔ ’’من ہیٹن‘‘ میں میں نے زیرتربیت ایک امریکی پادری سے جب یہ پوچھا کہ خداوند یسوع مسیح کہاں پیدا ہوئے؟ تو اس نے Bethlehem بتانے کی بجائے مجھے جواب دیا کہ وہ عیسائیت کی تربیت حاصل کر رہا ہے اس لئے افسوس جیزز کی برتھ پلیس کے بارے میں اسکی معلومات ابھی مکمل نہیں۔ 
اگلے روز نیوزویک میگزین کے ایک سروے میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ امریکی شہریت کے امتحان میں 29 فیصد امیدوار ایسے تھے جو امتحان میں امریکی نائب صدر کا درست نام نہیں بتا سکے۔ نیوزویک ایک معلوماتی مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ حلقوں میں خاصا مقبول میگزین ہے۔ اس پرچے میں کئے گئے سروے کے مطلب حتمی نہیں بلکہ صرف عوام کے اندر بیداری اور نوجوانوں کو مزید مطالعہ کی ترغیب دینا ہوتا ہے ورنہ برطانیہ سمیت یورپ کے بیشتر ممالک میں بے روزگاری‘ ذہنی کم فہمی اور ترقی کے محدود ذرائع بعض اوقات علم والوں کو علم و دانش کے استعمال سے محروم کر دیتے ہیں۔ 
امریکہ بلاشبہ ایک پاور ہے مگر تیزی سے بدلتے عالمی حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو جوہری ہتھیار رکھنے والے کئی ممالک امریکہ کو اب آنکھیں دکھا رہے ہیں کہ ملکی اور قومی دفاع ہر آزاد اور خودمختار ملک کا بنیادی حق ہے جسے کسی بھی عالمی دبائو سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ 

ای پیپر دی نیشن