پاکستان کے انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ان کے درمیان نفاق ہے۔ جب کبھی بھی مذہبی سیاسی جماعتوں نے مل کر الیکشن لڑا، انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عروج کے زمانہ میں بھی صوبہ سرحد میں جمیعت علماء اسلام کے مولانا مفتی محمود نے صوبائی حکومت بنائی اور وہ وزیراعلی منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف نو جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد میں مذہبی جماعتوں کا بنیادی کردار تھا۔ اس اتحاد نے تحریک نظام مصطفے کے نام سے ایک بھرپور سیاسی تحریک چلائی جو کامیاب رہی اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے محروم کردیئے گئے۔
1990ء میں جب آئی جے۔ آئی۔ یعنی اسلامی جمہوری اتحاد بنا، جس میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے میاں نوازشریف کی مسلم لیگ کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا اور بے نظیر بھٹو کی مقبول سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو شکست دی۔ نواز شر یف مْلک کے وزیراعظم بنے۔ جنرل مشرف کے زمانہ میں ، 2002ء کے عام انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں نے انتخابی اتحاد متحدہ مجلس عمل تشکیل دیا، جس نے مْلک کے دو صوبوں ، سرحد اور بلوچستان میں حکومتیں قائم کیں۔ اور مرکز میں بھی بھاری نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ قومی اسمبلی میں ایم۔ایم۔اے کے 60 ممبران منتخب ہوئے۔ جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی، اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کل ملا کر بھی 40 ممبران نہیں بنتے تھے۔
پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بنک موجود ہے۔اگر پاکستان کی انتخابی تاریخ پر نظر دوڑائیں اور انتخابی اعدادوشمار کا جائزہ لیں تو اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ جب کبھی مذہبی جماعتوں نے مل کر الیکشن میں حصہ لیا تو ان کے جیتنے والے امیدواروں کی تعداد بھی زیادہ رہی اور حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب بھی کہیں زیادہ رہا۔ ان اعدادوشمار کی اوسط نکالیں تو معلوم ہوگا کہ چند بڑی مذہبی جماعتوں کا اکیلا ووٹ بنک خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں بیس فی صد کے قریب ہے۔ اسی طرح پنجاب اور سندھ میں بھی بعض مذہبی جماعتوں کا ووٹ بنک دس بارہ فی صد سے زیادہ ہے، ووٹ کا یہ تناسب انفرادی مذہبی جماعتوں کا ہے جیسا کہ تحریک لبیک پاکستان ۔
اگر تمام مذہبی سیاسی جماعتیں اتحاد کرلیں تو آسانی سے یہ تیسری بڑی سیاسی قوت بن سکتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے درست ووٹ بنک کا اندازہ لگانا مشکل بھی ہے، کیونکہ مذہبی جماعتوں کا ووٹ دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی جاتا ہے، جن میں اب تحریک انصاف سرفہرست ہے۔ جب ایک عام ووٹر کو خواہ وہ کتنا ہی مذہبی کیوں نہ ہو، مذہبی جماعت کے امیدوار کی جیت کا کسی طرح امکان دکھائی نہ دے ، وہ ہارنے والے مذہبی جماعت کے امیدوار کو ووٹ کیوں دے، وہ سمجھتا ہے اس کا قیمتی ووٹ ضائع جائے گا۔ اس لئے وہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ ڈالتا چلا آرہا ہے، پہلے مسلم لیگ (نواز) اور اب پاکستان تحریک انصاف اس کا فائدہ اٹھارہی ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مْلک کی بڑی سیاسی جماعت کا مقبول لیڈر عمران خان ایک فرضی ‘‘ مذہبی ٹچ ‘‘ دیے بغیر اپنی کامیابی کی اْمید نہیں رکھتا، اور دوسری طرف اسلام اور مذہب کی حقیقی ترجمان مذہبی جماعتیں اپنی اس طاقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔اگر مذہبی سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات بھلا کر متحد ہوجائیں، تو مرکز میں کوئی بڑی سیاسی جماعت ان کے تعاون کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوری امت مسلمہ کے اتحاد کے داعی ہی اگر اپنے اندر اتحاد پیدا نہ کرسکیں تو اس سے عوام میں کتنا منفی تاثر ابھرتا ہے۔ اس بات کا اندازہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے اکابرین کو بخوبی ہونا چاہیے ۔ اگر یہ اپنے گروہی ، فروہی، فرقہ وارانہ، یا مسالک کے مسائل فراموش کرکے ایک نہیں ہوسکتے، تو پھر عوام سے کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ ان کے جھنڈے تلے جمع ہوں، جب کہ جھنڈا ہی ایک نہیں ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک اللہ، ایک رسول، ایک کتاب، ایک خانہ کعبہ، ایک روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور ایک یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کا جھنڈا ایک نہیں ہے، سیاسی نظریہ یا جماعت ایک نہیں ہے۔
مذہبی سیاسی جماعتیں پاکستان کے آئین پر یقین رکھتی ہیں، آئینی جمہوری نظام کی حامی ہیں، آئین میں دی گئی اسلامی دفعات کی زبردست حامی اور محافظ ہیں، مگر اس چیز سے نابلد ہیں کہ آپس میں سیاسی اتحاد اور تعاون کے بغیر سیاسی انتخابی کامیابی کی اْمید ممکن نہیں ہے۔ انتخابی کامیابی ہی آئین پر عمل درآمد کی کنجی ہے۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ اتنا آسان کام نہیں، مذہبی جماعتوں میں نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف بد اعتمادی پائی جاتی ہے بلکہ ایک ہی مذہبی جماعت اندرونی طور پر کئی دھڑوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ جہاں تک مسلک یا مکتبہ فکر کا تعلق ہے، ایک ہی فرقہ یا مسلک کی ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں میں نفاق کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے، اس بات پر اختلاف پیدا ہوجاتا ہے کہ قیادت کون کرے؟ مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا حل بھی نکالا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ دوسری کسی بڑی سیاسی جماعت سے اتحاد میں کامیابی بھی تب ممکن ہے جب ان مذہبی جماعتوں میں آپس میں اتحاد ہو۔ مذہبی جماعتوں کے آپس میں اتحاد کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پھر ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ، پاکستان تحریک انصاف ، پاکستان مسلم لیگ (ن)، اور پاکستان پیپلز پارٹی، انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کی طرف دیکھیں گی۔ مذہبی جماعتوں کا اتحاد ، اپنا سیاسی فائدہ دیکھتے ہوئے ان میں سے کسی کے ساتھ بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا انتخابی اتحاد کرسکتا ہے۔ بلکہ مرکز اور صوبوں میں علیحدہ علیحدہ سیاسی جماعت سے اتحاد بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح اسمبلیوں میں مذہبی جماعتوں کے امیدوار زیادہ تعداد میں پہنچ سکتے ہیں۔
درج بالا تجزیہ کے مطابق مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ایک بڑی انتخابی قوت بن سکتا ہے۔ تمام مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر جدوجہد کرنی چاہئے تاکہ یہ جماعتیں اپنے منشور اور پروگرام پر عملدرآمد کرنے کی پوزیشن میں آسکیں۔ اگر مذہبی جماعتیں اتحاد نہیں کرتیں تو آئندہ انتخابات میں ان کی کامیابی کا امکان انتہائی مخدوش ہے۔