جمعرات،   16 ربیع الاول    1444ھ،  13اکتوبر  2022ء

پنجاب کے2 وزرا ء نے استعفے وزیر اعلیٰ کو پیش کر دئیے 
ایک طرف پنجاب انتظامیہ ہر وقت تبادلوں کی زد میں لڑکھڑاتی نظر آتی ہے اعلیٰ افسران بوریا بستر باندھے تیار بیٹھے رہتے ہیں کہ نجانے کب کوچ کا حکم ملے۔ اب دوسری طرف وزرا ء کے استعفوں کا بازار بھی گرم ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز دو وزیروں نے اپنے عہدے چھوڑ کر وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے استعفے پیش کر دئیے ہیں جن میں پنجاب کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر جو پی ٹی آئی کے ایک مضبوط مہرے تصور کیے جاتے ہیں،ان کا استعفیٰ ہے تو دوسرے وزیر معدنیات لطیف نذر کا ہے۔ وزیر داخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر آرمی کے ریٹائرڈ کرنل ہیں، ان کی طرف سے لانگ مارچ اور آرمی کے خلاف زبان و بیان پر سخت ردعمل آیا تو عمران خان اور پی ٹی آئی والے اپنے ہی وزیر سے ممبر پارلیمنٹ سے ناراض ہو گئے۔ ان پر اجلاسوں میں تنقید شروع ہوئی تو انہوں نے بڑا اطمینان سے ’’ذاتی وجوہ‘‘ کی بنیاد پر ہاتھ سے لکھا استعفیٰ وزیر اعلیٰ کو دیدیا۔ خان صاحب کو اور ان کی پارٹی کو یہ بھی اعتراض تھا کہ انہوں نے اپوزیشن کے خلاف ہاتھ ہولا کیوں رکھا ۔ جن جن کی گرفتاری کا ٹاسک دیا گیا تھا وہ پورا کیوں نہ کیا۔ یوں پنجاب کا ایک بااثر مضبوط اپوزیشن کے لیے دہشت کی علامت وزیر کا وزارت چھوڑنا حکومت پنجاب کے لیے ضعف کا باعث ہو گا۔ اب وزیر معدنیات نے کہا ہے کہ انہوں نے ضمنی الیکشن کی وجہ سے انتخابی مہم چلانی ہے اس لیے مستعفی ہو رہے ہیں۔ اچھی نرالی منطق ہے۔ مگر جو باتیں قصہ گو پھیلاتے ہیں وہ بھی یونہی تو نہیں ہوتیں ویسے بھی کہتے ہیں
اگر ساز چھیڑا ترانے بنیں گے 
ترانے بنے  تو فسانے بنیں گے 
سو اب خلقت شہر بھی تو سننے کو فسانے مانگ رہی ہے۔
٭٭٭٭
سوات میں امن کیلئے عوام کا فقید المثال مظاہرہ 
اس کامیاب مظاہرے پر سوات کے عوام مبارکباد کے مستحق ہیں۔ فوج نے خدا خدا کر کے سوات میں امن بحال کیا وہاں سے حکومتی رٹ چیلنج کرنے والے گمراہ عناصر کا خاتمہ کیا۔ ورنہ سب جانتے ہیں یوں لگتا تھا سوات پاکستان کا علاقہ ہی نہیں۔ پھر وہاں سیاحت و ترقی کے دور کا آغاز ہوا۔ آج کا جدید سوات ہمارے سامنے ہے۔ اگر موجودہ سیلاب نہ آیا ہوتا تو سوات کا حسین چہرہ دیکھنے کے لائق تھا۔ ہر سال لاکھوں سیاح قدرت کے نظاروں، گھنے جنگلات، بہتے جھرنوں ، دریا اور ندی نالوں کو دیکھنے یہاں کا رخ کرتے تھے۔ اب سال کے شروع میں وہاں پھر دہشت گرد گمراہ عناصر دندناتے نظر آنے لگے تھے تو عوام نے احتجاج کیا تھا مگر صوبائی حکومت نے سب اچھا کہہ کر یہ آواز دبا دی۔ پھر سکیورٹی حکام نے ازخود وہاں ایف سی اور رینجرز کی پوسٹیں قائم کر دیں یوں د ہشت گردوں کو لگام ڈالی۔ مگر چوری چھپے یہ بدبخت اپنی کارروائیاں کرنے لگے۔ گزشتہ روز ایک سکول وین پر حملہ کیا جس میں ڈرائیور شہید ہوا اور 2 بچے زخمی ہوئے، عین اس وقت یہ سب کچھ ہوا جب نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پاکستان آئی ہے۔ ملالہ پر بھی ایسا ہی حملہ اپنے گائوں میں ہوا تھا، جس میں وہ زخمی ہوئی تھی۔ دہشت گرد گمراہ لوگ تب بھی تعلیم کے خلاف تھے آج بھی ہیں۔ مگر سلام ہے سوات کے شہریوں پر جو قربانیاں دے کر ظلم سہہ کر بھی امن چاہتے ہیں۔ علم چاہتے ہیں، خیبر پی کے میں حکمران تو اس ظلم پر چپ ہیں مگر وہاں کے باقی سیاسی، سماجی و مذہبی رہنمائوں نے امن کا مظاہرہ کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ محب وطن لوگ ہیں اور سوات میں امن ، سکون ، سلامتی، علم ، ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں۔ 
٭٭٭٭
مہنگائی کم کر دیں میری صحت مزید بہتر ہو جائے گی۔ چودھری شجاعت 
اسے کہتے ہیں سو سنار دی تے اک لوہار دی۔ بزرگ سیاستدان یونہی نہیں بنتے ایک عمر کے بعد بصیرت حاصل ہوتی ہے اور صدیوں بعد کوئلہ ہیرا بنتا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ق لیگ کے رہنما چودھری شجاعت نے وفد کے ہمراہ شہباز شریف سے ملاقات کی ، ان کی حمایت کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے ان کی صحت بہتر ہونے پر خوشی ظاہر کی تو چودھری شجاعت نے برجستہ کہ وزیر اعظم آپ مہنگائی کم کر دیں میری صحت مزید بہتر ہو جائے گی۔ جس پر وزیر اعظم نے ایسا ہی کرنے کا یقین دلایا۔ اس وقت حقیقت میں عوام بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں برباد ہو رہے ہیں۔ اگر حکومت عوام کی نہیں سنتی، اپنے اتحادی چودھری شجاعت کی ہی سُن لے اور مہنگائی میں کمی لائے۔ روٹی 15 نان 25 کا ہو چلا ، انتظامیہ خاموش ہے۔ سبزیاں، دیگر کچن آئٹمز کے نرخ آسمان سے نیچے لانا ہونگے ورنہ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں خودکشی کر کے زمین کے نیچے جانے کی کوششوں میں لگ چکے ہیں۔ ا پوزیشن والے بھی مہنگائی کو لے کر حکمرانوں کو خوب لتاڑ رہے ہیں۔ کوئی تو عوام پر ترس کھائے۔ منافع خور، ذخیرہ اندوز مافیاز کو نشانِ عبرت بنائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر عوام ازخود حکمرانوں کو نشانہ عبرت بنا دیں گے اور وہ وقت زیادہ کٹھن ہو گا۔ اس لیے اس وقت سے پہلے ہی حکمران کچھ کر جائیں ورنہ پھر 

’’جو دریا جھوم کے اٹھتے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے‘‘
٭٭٭٭
لاہور میں آندھی اور ہلکی بارش نے موسم سرما کی آمد کا اعلان کر دیا 
لائے اس بت کو التجا کر کے 
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے 
پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی کا یہ شعر موسم سرما کے دبے پائوں چلے آنے  پر یاد آ رہا ہے۔ ورنہ اس بار تو گرمیاں جہاں شدید تھیں وہاں طویل بھی بہت تھیں۔ اکتوبر آ گیا آدھا گزر گیا مگر لوگ ابھی تک اے سی کے بغیر سونے کا تصور نہیں کر سکتے۔ پنکھے بند کرنا ناممکنات میں تھا جو دن رات چلتے رہتے تھے۔ مون سون یعنی ساون بھادوں نے بھی رنگ جمایا ، برکھا برسی بھاڑ آیا مگر گرمی کا زور نہ ٹوٹا ۔ مارچ تا اکتوبر متواتر آٹھ ماہ پنجاب اور سندھ والوں نے گرد و گرما اور گدا کا جس طرح روتے پیٹتے سامنا کیا وہی جانتے ہیں۔ جنہوں نے مئی جون جولائی پنجاب یا سندھ میں ناگزارہ ہوا نہیں کیا پتہ گرمی کیا ہوتی ہے۔ گزشتہ شب شام ڈھلتے ہی موسم نے لی انگڑائی اور آسمان پر جو گھٹا چھائی تو وہ اپنے پہلو میں آندھی کے جھکڑ لائی جس کے بعد ہوا سے موتی برسنے لگے اور گرد و غبار بیٹھ گیا۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس ہلکی بارش نے موسم کا رنگ ہی بدل ڈالا، کل تک جو پنکھا تیز کرو کہتے تھے، اب خود اُٹھ کر پنکھا آہستہ کرنے لگے۔ یوں طویل عرصے بعد گرمی خدا خدا کر کے رخصت لے کر روانہ ہوئی۔ اب 3 ماہ موسم نرم رہے گا۔ سردی نے نہایت خوشگوار انداز میں اپنی آمد کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے گرمی کے ستائے کروڑوں لوگوں کے چہروں پر خوشی بکھرنے لگی ہے۔ جلد ہی گرم کپڑے صندوقوں، الماریوں سے نکل پڑیں گے اور ہر طرف سردیوں کے رنگ برنگ پہناوے اپنی بہار دکھاتے نظر آئیں گے۔ اس لیے لوگ موسم سرما کو بڑے چائو کے ساتھ خوش آمدید کہہ رہے ہیں جب نت نئے پہناوے پہننے کا جی چاہتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...