قومی ایجنڈا …  اورپاکستان !!


سبھی جانتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں پاکستان مختلف نوع کے معاشی اور سیاسی دبائو کا شکار ہے ۔ایک جانب حالیہ سیلاب اپنی بدترین تباہ کاریوں کے ساتھ موجود ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتیںاپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں اور اس تناظر میں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے طرز عمل کو کسی طور قابل ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ غالبا اسی تناظر میں چند روز قبل سپہ سالار نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی طرز کی فیک نیوز اور پروپیگنڈے پر ہر گز توجہ نہ دیں کیوں کہ کسی ملک، گروپ یا تنظیم کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ سیاسی یا معاشی طور پر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کرے ۔جنرل باجوہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ  ہم سیاسی جمود توڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیںجو جنوبی ایشیائی ملکوں کی ترقی اور پْرامن اور باوقار طریقے سے تمام علاقائی و دوطرفہ مسائل کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اجتماعی طور پر بھوک، غربت، ناخواندگی، بڑھتی آبادی ، موسمیاتی تبدیلی اور وبائی امراض جیسے مسائل کے حل کی جانب سنجیدہ توجہ دینی ہوگی۔ سالار نے مسئلہ کشمیر کی بابت کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے  اور پاکستان مسلسل بین الاقوامی برادری کو یہ احساس دلا رہا ہے کہ بھارت کا 5 اگست 2019 کا اقدام خطے میں قیامِ امن کیلئے خطرہ ہے اور ہم تنازع کشمیر کا جلد منصفانہ حل چاہتے ہیں ۔ 
مبصرین کے مطابق آرمی چیف کا یہ بیان ریاستِ پاکستان کے اسی عزم کا اعادہ ہے جس کے تحت پاکستان اقوامِ متحدہ سمیت تمام اہم بین الاقوامی اداروں پر یہ بات واضح کرچکا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر بھارت سے خوشگوار تعلقات قائم نہیں کرسکتا۔ جب تک مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا تب تک خطے میں سکیورٹی مسائل حل نہیں ہوسکتے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ہیں اور ان کے درمیان مسئلہ کشمیر کی وجہ سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے امکانات اس مسئلے کے حل تک موجود رہیں گے۔ اسی تناظر میں اقتصادی ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ 7ماہ قبل جس طور آئی ایم ایف کے معاملات کو غلط ڈھنگ سے سلجھانے بلکہ الجھانے کی کوشش کی گئی اس کے نتیجے میں یہ معاملات مزید پیچیدہ پو گئے اور اب اسی وجہ سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم آج کل میں امریکہ گئے ہیں ۔توقع ہے کہ اس کے بعد پاکستان کی معاشی صورتحال میں قدرے بہتری پیدا ہو گی کیوں کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ معاشی اور سیاسی استحکام کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے،  بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ معاشرتی استحکام کی بنیاد بھی معاشیات سے ہی وابستہ ہوتی ہے ۔ کسے علم نہیں کہ غربت اور افلاس جب حد سے بڑھ جائے تو  دیگر بہت سی قباحتیں خود بخود جنم لے لیتی ہیں یوں سیاسی ،معاشی اور معاشرتی استحکام لازم و ملزوم ہیں۔ 
دوسری جانب چند روز قبل یعنی 7اکتوبر کو پاکستان اور جرمنی کے وزرائے خارجہ کے مابین ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جس طور بھارت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے بعد سے بھارت بری طرح بوکھلا گیا ہے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ پاک وزیر خارجہ نے اپنے جرمن ہم منصب کے ہمراہ جس انداز میں بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے تبھی تو نیو یارک میں معروف امریکی تھنک ٹینک کے محقق  ولسن سینٹر نے کہا کہ بھارت کو اس تناظر میں بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس سے قبل 2 سے 4 اکتوبرکو پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے آزاد جموں و کشمیر کا دورہ کیا اور مختلف حکومتی شخصیات سے ملاقات کی۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ دورے کے دوران انھوں نے اپنی گفتگو میں اعلانیہ طور پر ’’ آزاد جموں و کشمیر‘‘ کے الفاظ استعمال کیا جس سے بھارتی میڈیا میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، ہندوستان اس تناظر میں اتنا سیخ پا ہے کہ اس نے امریکی سفیر کو بلا کر باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا۔ 
علاوہ ازیں معاشی ابتری کی بات کی جائے تو وفاقی وزیر برائے موسمیات شیری رحمان کا کہنا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔انھوں  نے کہا کہ عالمی بینک نے سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو 40 ارب ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے اور عالمی بینک نے بجا طور پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے مزید 90 لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کہ ہم عالمی دنیا کو اپیل کر چکے ہیں کہ حقیقی نقصان ان تخمیوں سے کہیں زیادہ ہے، گھروں، بنیادی ڈھانچے، سڑکوں اور فصلوں کو جو نقصان ہوا ہے اس سے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 10 اکتوبر کو وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے تھرکول بجلی منصوبے کا افتتاح کیا اور اس موقع پر بلاول بھٹو نے اعلان کیا کہ اس منصوبے کو ’’ شہباز سپیڈ‘‘ کیساتھ مکمل کیا جائے گا۔ مختلف مسائل کی بازگشت میں یہ خبر بہرحال امیدکا خوشگوار جھونکا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ آنے والے ایام ملک وقوم کے لئے خوشحالی کا سبب بنیں گے اور پاکستان انشااللہ عالمی افق پر امید کا نیا ستارہ بن کر ابھرے گا ۔ 

ای پیپر دی نیشن