چشم ِ فلک حیران ہے ،تاریخِ عالم کے ماہرین انگشت بدنداں ہیں ، غزہ میں حماس نے آخر یہ کیا حکمت عملی اختیار کی ،جس نے ظالم اورقابض اسرائیل کا مضبوط ترین دفاعی نظام ریت کی دیوار بنا دیا، عالمی میڈیا حیرت زدہ ہے کہ ایک ضعیف قوم میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی، ممولاآخر کیسے شہباز سے نبردآزما ہوگیا۔مال ودولت کے فتنے میں غرق عرب حکمران پریشان ہیں،انکی اپنے ”چچا زاد بھائی“ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش فی الوقت ادھوری رہ گئی ہے۔عالمی قوتیں پیچ وتاب کھارہی ہیں،فلسطین کے معاملے میں ان کی قوت کانشہ ٹوٹ سا گیاہے۔عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل کی فتوحات کے پس منظرمیں عرب دنیاکے ابوالہول حکمرانوں کی نااہلی شامل تھی۔ انتفادہ سے حماس تک کاسفراصل میں اپنے ظاہری ہمدردوں کی مدد کے بغیر محض اللہ کے بھروسے پر طاغوت سے ٹکراجانے کی عملی کوشش ہے۔گذشہ ہفتے کی صبح عام نہیں تھی،اسرائیل پر حماس کے حملوں نے اچانک ایک نئی صورتحال پیداکردی۔ابھی اس جنگ کے اختتام کے بارے کچھ کہنا حتمی نہیں لیکن حالات بظاہر وہی دکھائی دیتے ہیں جو ہرباراپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری پر ختم ہوتی ہے۔البتہ گذشتہ چندسالوں سے عالمی طاقتیں خفیہ ڈپلومیسی کے ذریعے چندمسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی جوسازش کررہی تھیں ،اس میں کامیابی اب آسان نہیں رہی یا کم ازکم اسکی رفتار سست ہوجائیگی۔ اسرائیل کوسترکی دہائی کے بعداس غیرمعمولی صورت حال کا سامنا کرنا پڑاہے۔ اسے اپنی خفیہ ایجنسی موساد،جدید جاسوسی نیٹ ورک اور اپنی فوجی صلاحیت پر پورا بھروساتھا لیکن اب کی بار صورت حال اس کے قابو سے نکل گئی ہے۔اپنے ملک کے اندر گھس کرحملہ کرنے والوں سے مقابلہ کرنے کی ان میں استطاعت نہیں۔اسکے سیکڑوں شہری ہلاک ہوگئے ہیں،معاشی صورتحال دگرگوں ہے اورعالمی برادری میں اچھی خاصی سبکی بھی ہوئی ہے۔ اگر فلسطینی جنگجو اس جنگ کو طول دیتے ہوئے ذرا موثر اندازمیں جاری رکھیں تو اسکے تاریخی اثرات برآمد ہونگے۔ اسرائیل مظلوم فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کا مجرم ہے۔ جس طرح امریکہ اوربرطانیہ کی مشترکہ چالوں سے یہودی آبادکاروں کے ذریعے عربوں سے انکی زمین ہتھیالی گئی۔انسانی تاریخ میں عیاری اورمکاری کی ایسی مثال شایدکہیں نہ ملے۔نئی نسل کیلئے اس کا مطالعہ اچھی خاصی دلچسپی کا حامل ہوگا۔تاریخی حوالے سے دیکھیں تومعلوم ہوتاہے کہ 1885ءمیں ہی عثمانی سلطنت کے تحت فلسطین میں اراضی کی ملکیت کے قوانین میں اصلاحات ہوئیں۔ ان اصلاحات کی وجہ سے فلسطین میں قبائلی نظام کا خاتمہ ہوا اور فلسطین جدید دورمیں داخل ہوا۔
1897ءمیں تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں عالمی صہیونی تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ 1897ءمیں سوئیٹرز لینڈ کے شہر باسل میں منعقدہ کانفرنس نے فلسطین میں یہودی ریاست کے باقاعدہ قیام کیلئے سیاسی مہم کی بنیاد رکھی۔ صہیونیوں نے فلسطین کے علاوہ یوگنڈا اور ارجنٹائن میں بھی اسرائیلی ریاست کے قیام کے بارے میں غور کیا۔ بعد میں انھوں نے اس خیال کے تحت فلسطین کے علاوہ تمام امکانات کو مسترد کردیا کہ انکے مطابق ”یروشلم سے جذباتی تعلق ہی اتنے یہودیوں کو فلسطین کی طرف کھینچ سکتا ہے۔ 1914ءمیں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو ترک خلافت نے برطانیہ کی مخالفت کی۔ یہ عالمگیرجنگ کسی بھی فریق کیلئے فتح کی خوش خبری نہ بن سکی۔ ہر فریق کی کوشش تھی کہ وہ خفیہ معاہدوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ثمرات سمیٹ سکے، یہودیوں کی عالمی تنظیم کو اس لحاظ سے نقصان پہنچا کہ انکے ارکان پوری دنیا میں منتشر ہوگئے۔ بلادِ شام اور عراق کے خطّے میں اپنے عسکری مفاد اور سیاسی برتری کے قیام کیلئے برطانیہ نے انتہائی عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سلطنتِ عثمانیہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔اس سلسلے میں اوّلین قدم امیر حجاز (حسین بن علی) کو کی گئی ایک پیش کش تھی، جس کے نتیجے میں معاہدہ طے پایا کہ حسین، عثمانی خلافت کے خلاف عرب انقلاب کا اعلان کردیں گے، اسکے بدلے میں برطانوی حکومت انکی آزادی کی ضمانت دیگی۔ اس حوالے سے برطانیہ اور شریف حسین کی باہمی گفت و شنید اہم تھی۔اس تحریری وعدے میں بذاتِ خود ابہام ہے، کیوں کہ اس میں مستقبل کی ریاست کی حدود کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی، نتیجے کے طور پر برطانیہ نے ” خصوصی انتظامی فیصلوں“کا مطالبہ کیا اور اس مجوزہ عرب ریاست سے مرسین، حلب، حماة، دمشق، یمن اور خلیج کی عرب ریاستوں کو خارج کردیا۔ شریف حسین نے ناخوش گواری کے ساتھ اس فیصلے کو قبول کرلیا، تاہم انہوں نے حلب ، حمص اور دمشق کو عرب ریاست میں شامل رکھنے پر اصرار کیا۔اعلان بالفور کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف ممالک سے یہودی ایک سیلاب کی شکل میں فلسطین کی طرف امڈ پڑے، عربوں کی زمین دھڑا دھڑ بکنے لگی، زمینوں کی کاشت اور منڈیوں سے آہستہ آہستہ عربوں کی بے دخلی شروع ہوئی۔
1920ءکی مشرق وسطیٰ کانفرنس میں اپنے قومی وطن کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر ویزبین نے کہا:”اسرائیلیوں کیلئے فلسطین ایسا ہی ہے جیسا انگلستان انگریزوں کیلئے، ہم دو ہزار سال سے امید کی زندگی بسر کرتے چلے آرہے ہیں، سردست ہم برطانوی سایہ عاطفت میں ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ کچھ عرصے بعد ہماری حکومت خود اختیاری ہوگی“ مجمع میں سے کسی کے اس سوال پر کہ اس وقت عربوں کا کیا حشر ہوگا؟ ڈاکٹر ویزمین نے جواب دیا:” اگرچہ ہم فلسطین کو خالص یہودی ریاست بنانا چاہتے ہیں اسکے باوجود جو عرب فلسطین میں رہنا چاہیں گے انھیں اس کی اجازت ہوگی لیکن جو نہ رہنا چاہیں گے ان کیلئے مصر ہے، شام ہے اور موآب کی پہاڑیوں کے افق سے اس پار وسیع صحرا ہے جہاں سے آکر وہ یہاں آباد ہوئے تھے“۔دسمبر 1917ءتک برطانیہ، جنوبی اور مرکزی فلسطین پر مکمل طور پر قابض ہوچکا تھا، جس میں یروشلم بھی شامل تھا، برطانوی فوج کا سپہ سالار لارڈ ایلن بے سلطان صلاح الدین ایوبی کی مزار پرپہنچا اوراس نے اپنی جوتیاں قبرپر تین دفعہ مارکرکہا”صلاح الدین ہم آگئے ہیں“۔برطانیہ نے فلسطین پراپنا قبضہ کب ختم کیا؟،کب اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا؟،عرب اسرائیل جنگوں سے کیا نتائج برآمد ہوئے؟ ،اس دوران میں مظلوم فلسطینیوں پرظلم وستم کے کیا کیا پہاڑ توڑے گئے، اپنوں اور پرایوں نے کہاں اورکب انکے خون سے ہولی کھیلی۔ یہ اس کا محل نہیں،اس کی کہانی الگ بیان ہونی چاہیے،البتہ جب تک یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہوتا، دنیا میں امن کا قیام ایک ادھورا خواب رہے گا۔یہاں ایک فلسطینی شاعرکی مختصرنظم پیش ہے:
میں تمھیں قصہ سناتا ایک فاختہ کا،جس کو ذبح کردیاگیا،
میں تمھیں قصہ سناتا،اگرانھوں نے میرے ہونٹ نہ سی دئیے ہوتے۔
میرا وطن سفری بیگ نہیں
Oct 13, 2023