7 اکتوبر 2023 ءکے دن کو یہودی اسرائیل کا ”نائن الیون“ قرا ر دے رہے ہیں۔ حیران کن طور پر جمہوریت کا علمبردار کوئی ایک بھی ملک حماس کے حالیہ حیران کردینے والے حملے کو اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے تناظر میں دیکھنے اور 1967 ءکے بعد سے فلسطینیوں کی تسلسل کے ساتھ جاری نسل کشی کا ردعمل قرار دینے کی بجائے الٹا حماس کی فورس کو دہشت گرد قرار دے کر اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہر طرح کی امداد فراہم کرنے کی یقین دہانیاں کرانے میں مصروف ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے تو اسرائیل کی فوجی مدد کیلئے 5000 میرین پر مشتمل جدید ترین طیارہ بردار جنگی بیڑاہ غزہ کے ساحل کی طرف روانہ کردیا ہے۔ امریکی آشیرباد ملتے ہی اسرائیلی وزیراعظم نے غزہ پر اسرائیل کے مکمل قبضہ تک جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر تے ہوئے غزہ میں 24 لاکھ پر مشتمل فلسطینیوں کی آبادی کو اپنے گھر خالی کرنے کا حکم صادر کر دیا ہے۔
پہلے روز حماس فورس کے ہاتھوں ملنے والی تاریخی ہزیمت کے جواب میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں100 سے زیادہ عمارتوں کو نشانہ بنایا تھا۔ جن میں 12 کثیر المنزلہ عمارتوں کے علاوہ چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں اور ہسپتال کی عمارتیں بھی شامل تھیں۔ جبکہ دو روز بعد 9 اکتوبر کی شام تک غزہ میں تباہ کی گئی عمارتوں کی تعداد 1000 سے تجاوز کر چکی تھی۔ غزہ میں موجود بین الاقوامی میڈیا سے منسلک صحافیوں کے مطابق تباہ شدہ عمارتوں کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے زلزلے نے پورے غزہ کو ملیا میٹ کر دیا ہو۔بین الاقوامی میڈیا کے مطابق 10 اکتوبر کی رات تک ارب میڈیا سے منسلک 7 صحافی بھی مارے جاچکے تھے۔ اتنے بڑے انسانی المیے کے باوجود بین الاقوامی میڈیا اسرائیل کو مظلوم اور وہاں دنیا بھر سے لا کر فلسطینیوں سے بندوق کے زور پر خالی کرائے گئے بستیوں میں آباد کیے گئے یہودیوں کو معصوم ثابت کرنے میں مصروف ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو اسرائیل گزشتہ نصف صدی سے فلسطین کے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر ناجائز قابض چلا آرہا ہے۔ اپنے اس قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے ان پچاس برسوں میں اسرائیلی حکومت اور فوج نے انتہائی منظم انداز سے فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ فلسطینی خاندانوں کو ان کی خاندانی املاک و زمینوں سے بے دخل کرنے کے بعد وہاں امریکہ و یورپی ممالک سے یہودی خاندانوں کو لاکر آباد کیاگیا۔ انہیں اور انکے بچوں کوجدید ہتھیار استعمال کرنے کے کی تربیت دے کر انہیں جدید ہتھیاروں سے لیس کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی گئی کہ اگر وہ اپنے تحفظ کیلئے جب بھی کسی فلسطینی کو قتل کریں گے انہیں اسرائیلی پولیس اور عدالتیں تحفظ فراہم کریں گی۔ زیتون ‘ کھجور اورسیب کے چھوٹے چھوٹے قطعات کی شکل میں باغات جو صدیوں سے فلسطینیوں کی معاشی کفالت کے ضامن چلے آرہے تھے یہ سب کچھ برباد کردیا گیا۔
حکومت وفوج جب بھی یہودی آبادیوں کی توسیع کا منصوبہ بناتی تو زیتون و کھجور اورسیب کے تیار باغات کو جڑوں سے کاٹ کر درختوں کو آگ لگا دی جاتی۔ فلسطینیوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیئے جاتے اور مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں پرگولیاں برسا کر انہیں اپنے پیاروں کی لاشوں کو گلے لگا کر رونے پر مجبور کر دیاجاتا۔
دل دہلا دینے والے ان مناظر کو دیکھنے کی تاب نہ رکھنے کے باوجود مغربی اقوام جو خود کو اخلاقیات کے موجد اور انسانی حقوق کے علمبردار گردانتے نہیں تھکتے، فلسطینیوں سے زبانی کلامی ہمدردی جتا کر فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی ہر قراردادکیخلاف یک زبان ہو کران کی مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے ذرا نہ شرماتے۔
مغربی اقوام سے حاصل ہونے والی حمایت کے بل بوتے پر یہودیوں نے فلسطینیوں پر جس طرح کے ظلم ڈھائے اسے دیکھتے ہوئے اسرائیلی حکومت و عوام کو تو چھوڑیے باقی دنیا بھی تصور نہیں کرسکتی تھی کہ حماس کے جنگجوں یوں سر پر کفن باندھ کر اسرائیلی فوج پر اس انداز سے چڑھ دوڑیں گے کہ انہیں بستر سے نکل کر کپڑے پہننے کی فرصت بھی نہیں ملے گی اور وہ ننگے بدن بلٹ بروف جیکٹس جسم پر چڑھا کر اسلحہ کے استعمال سے پہلے ہی حماس کی گوریلا فورس کا نشانہ بن جائیں گے۔
خفیہ ادارے کے طور پر دنیا پر نظر رکھنے والی موسادحماس کی طرف سے حملہ کی تیار یوں سے بے خبر رہے گی۔ شاید موساد اور اسرائیلی فوج کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حماس کے گوریلے پیرا گلائیڈ نگ کرتے ہوئے ان کے گھروں کی چھتوں پر آن اتریں گے۔ یوں 20سے 24فٹ غزہ کی پٹی کے گرد تعمیر کی گئی کنکریٹ کی مضبوط دیوار حماس پیراگلائیڈرز کے لیے مذاق بن کر رہ جائے گی۔ اسرائیل کا جدید ترین مواصلاتی انٹیلی جنس کا نظام حماس کی طرف سے استعمال کیے گئے سوسال پرانے نظام کے آگے ڈھیر ہوجائے گا۔
اسرائیل پر حماس کے حملے کا انجام جو بھی ہو اس حملے نے دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کو چکراکر رکھ دیا۔ صرف اسرائیل ہی نہیں اس کی حمایتی مغربی دنیا بھی یہ سمجھنے میں ناکام رہی کہ جب کسی قوم کو غلام بناکر ان کی زندگی جہنم بنادی جائے تو وہ اپنی بقا اور آزادی کیلئے ایسا کچھ کر گزرنے پر تیار ہوجاتی ہے جس کا عام حالات میں تصور بھی محال ہے۔
کچھ ایسی ہی صورت حال سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے باسی بھی دوچار ہیں جنہیں اپنے ہی وطن میں قیدی بنادیا گیا ہے۔ وہاں بھی بھارت کی ناجائز قابض فوج کشمیریوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر چکی ہے۔ کشمیریوں کو کیسے دبانا ہے۔ ان کے جذبہ حریت کو کسیے کچلنا ہے اور کشمیریوں کو بے گھر کر کے وہاں بھارت سے ہندوﺅں اورریٹائرڈبھارتی فوجیوں کو کس طرح آباد کرنا ہے۔
اس سلسلے میں 2015میں بھارت سرکار نے باقاعدہ سفارتی سطح پراسرائیل سے مدد کی درخواست کی تو اس کے جواب میں اسرائیل نے اپنا ایک خصوصی وفد دہلی کے راستے سری نگر روانہ کیا۔ جہاں 2ہفتہ تک قیام کے دوران یہودیوں نے بھاتی حکام کو بتایا کہ انہو ں نے کس طرح فلسطینیوں کو یرغمال بنا رکھاہے۔ خاص کر غزہ میں 20لاکھ سے زیادہ آبادی کو کیسے دنیا سے الگ تھلگ کر کے انہیں زندگی گزارنے کیلئے اسرائیل کا محتاج بنادیا گیا ہے۔
اسرائیل سے ملنے والی تجاویز کے بعد ہی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی آبادی کو کم کرنے کیلئے بھارت سرکار نے مقبوضہ ریاست کو بھارتی آئین میں دی گئی شق 370 کے ذریعے ملنے والے اسٹیٹس کو تبدیل کر کے اسے بھارت میں ضم کرنے کا منصوبہ بنا یاجس پر 2019میں عملدآمد تو ہوگیا لیکن اسرائیل کی حالیہ صورتحال بھارتی حکمرانوں اور سورماﺅں کیلئے الارمنگ ہے کیونکہ جو حال بھارت کے استاد اسرائیل کا حماس کے گوریلوں نے کیا ہے بھارت بھی اسی طرح کے انجام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اسرائیل اور یہودیوں کو توامریکہ اور پورے یورپ کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن بھارت کیا کرے گا
٭....٭....٭